سوویت یونین کا خاتمہ1991 ء میں ہوا۔ اس وقت روس کے صدر میخائل گورباچوف تھے۔ روسی قوم کے حوصلے ڈوبے ہوئے تھے۔ گورباچوف کے جانے کے بعد بورس یلسن نے اقتصادی اصلاحات کے ذریعے ملک کے حالات بہتر کرنے کی کوشش کی۔ لیکن دسمبر 1999ء کی ایک صبح انہوں نے یہ بھاری پتھر بالآخر اپنے کندھوں سے گرا دیا اور استعفٰے دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وزیراعظم ولادیمیر پیوٹن اب سے ملک کے سربراہ ہوں گے۔ پیوٹن1999 ء سے 2000 ء تک قائم مقام صدر رہے اور 2002 ء سے صدر بن گئے۔ وہ اس وقت سے ملک کی قیادت سنبھالے ہوئے ہیں۔
ایک عام روسی باشندے کی زندگی میں جو خوش حالی نظر آتی ہے وہ ولادیمیر پیوٹن کی کوششوں کا ہی ثمر ہے۔ جو کام بورس یلسن سے نہ ہوسکا وہ ودلادیمیر پیوٹن نے کردکھایا۔ پیوٹن نے پہلے تو ٹیکس کم کرکے کارپوریٹ شعبے کو آزادی دی۔ معیشت کو کیپٹل ازم کی راہ پر گامزن کیا۔ پھر 2005 سے انہوں نے سماجی بہبود کے منصوبے شروع کیے۔ ان اصلاحات کی ایک اہم بات صحت اور تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والوں کی تنخواہوں میں اضافہ تھا۔ روس کی ترقی کا راز کارپوریٹ شعبے اور حکومت کے درمیان قریبی تعلقات میں مضمر ہے۔ یہ اصلاحات اتنی موثر تھیں کہ امریکی جریدے بزنس ویک کے مطابق2000 ء میں جب پیوٹن نے اقتدار سنبھالا تو صرف80 لاکھ افراد روس کے متمول طبقے میں شمار ہوتے تھے۔ صرف چھ برس میں 2006 ء تک یہ تعداد ساڑھے5 کروڑ ہوچکی تھی جو روس کی آبادی کا 37 فیصد تھی۔ بعد کے ہر گزرے برس میں روس کی ترقی کا گراف اوپر کی جانب ہی گیا۔
عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق2006 ء میں روس کی شرح نمو یعنی جی ڈی پی764 ارب ڈالر تھی۔ اگلے دو برس میں یہ ایک ہزار ارب ڈالر سے بڑھ گئی۔2013 ء تک دگنی سے بھی زیادہ ہوکر 2 ہزار17 ارب ڈالر تک جا پہنچی۔2014 ء سے جی ڈی پی میں کچھ کمی آئی جو 2017 ء میں 1577 ارب ڈالر رہی۔ سال 2000 ء میں روس کی فی کس آمدن 6 ہزار ڈالر کے لگ بھگ تھی جو اب تقریباً دگنی ہو چکی ہے۔ یہ آمدن بھارت، چین ، برازیل جیسے کئی بڑے ممالک سے خاصی زیادہ ہے۔ اگرچہ امریکہ ، کینیڈا اور بیشتر یورپی ممالک سے کم ہے۔ مقامی کرنسی میں فی کس اوسط ماہانہ آمدن 36000 روبل بنتی ہے مگر جیسا کہ بتایا گیا صحت، تعلیم، رہائش سمیت بنیادی ضرورت کے بیشتر اخراجات حکومت نے اپنے ذمہ لئے ہوئے ہیں، اس لئے شہریوں کی جیب پر بوجھ نہیں پڑتا۔
دراصل پیوٹن کے عوامی فلاحی اقدامات کا عکس خوش حالی کی صورت میں روس بھر کی سڑکوں اور گلیوں میں نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں اپوزیشن نام کی چیز سے لوگ زیادہ واقف نہیں کیونکہ عوامی مسائل کی ’’قلت‘‘ کے باعث اسے پذیرائی ملنا قدرے مشکل ہے۔ روس میں برسر اقتدار جماعت یونائیٹڈ رشیا ہے۔ وہاں کی اسٹیٹ ڈوما یعنی قومی اسمبلی میں اس کی نشستیں 76 فیصد ہیں جو کل450 نشستوں میں سے 340 بنتی ہیں۔ یعنی دو تہائی سے زائد اکثریت کے باعث اس کے لئے قانون سازی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں آتی۔ ایوان بالا، جسے وہاں فیڈریشن کونسل کہاجاتا ہے، 166 رکنی ہے۔ پارلیمنٹ میں تقریباً6 جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے۔
یہ امر دلچسپی کا باعث ہے کہ ٹوٹ پھوٹ کے باوجود روس رقبے کے لحاظ سے اس وقت بھی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ ایک کروڑ71 لاکھ 25 ہزار مربع کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس نے کرہ ارض پر انسانی آبادی کے حامل 1/8 حصے کو گھیر رکھا ہے۔رقبے کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں گیارہ ٹائم زون موجود ہیں ۔روس کی سرحدیں بھی کوئی گیارہ ملکوں سے ملتی ہیں۔ یہ جنوب میں جاپان ،چین ،شمالی کوریا اور منگولیا سے ملتا ہے۔درمیان میں وسط ایشیائی ریاستوں جیسے قازقستان ،تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان ،جارجیا اور آرمینیا سے ملتا ہے جبکہ یورپ کی جانب سے یہ یوکرائن ،رومانیہ، بلغاریہ ، بیلاروس ،لتھوانیا ، لٹویا اور اسٹونیا سے ہم آغوش ہوتا ہے اور شمال کی طرف سے فن لینڈ اور ناروے سے جڑا ہوا ہے۔ ادھر روس دنیا کے آخری سرے سے علاقہ کے ذریعے امریکا سے بھی ہم کلام نظر آتا ہے۔
شہروں کے درمیاں سے گزرتے شفاف دریا روس کا حسن ہیں
اگرچہ 16 کروڑ نفوس کے ساتھ یہ آبادی کے لحاظ سے بھی دنیا کا نواں بڑا ملک ہے، مگر اتنے بڑے رقبے کے ساتھ یہ آبادی ’’اونٹ کے منہ میں زیرے‘‘ کے مترادف ہے۔ آپ اس سے اندازہ کریں کہ روس میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک کے سفر کے لیے ہوائی جہاز کا دس گھنٹے کا سفر درکار ہوتا ہے۔ جبکہ دنیا کے کئی دیگر حصوں میں اتنی بڑی مسافت دس، بیس ملکوں کو آرام سے نگل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس کو آبادی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ دیہی علاقوں کا بہت بڑا حصہ خالی پڑا ہے، جہاں قابل کاشت زمین کے ساتھ مکانات بھی موجود ہیں۔ مگر کوئی رہنے والا نہیں کیونکہ لوگوں کی اکثریت شہروں میں قیام کو ترجیح دیتی ہے۔ حکومت ان علاقوں کو آباد کرنے اور وہاں کاشت کاری کے لیے خصوصی مراعات دیتی ہے۔ دوسری طرف آبادی میں اضافے کے لیے بھی خصوصی پیکیج دیے جاتے ہیں۔ مثلا ً ہر دوسرے بچےکی پیدائش پر حکومت پانچ لاکھ روبیل بطور انعام دیتی رہی ہے جبکہ تیسرے مہمان کی آمد پر نہ صرف زرعی زمین الاٹ کی جاتی ہے بلکہ اسے کاشت کرنے کے لیے سرکاری معاونت بھی فراہم کی جاتی ہے۔
پیوٹن کی حکومت سے واقعی روسی شہری خوش ہیں یا نہیں؟ اندر کی بات جاننے کے لئے ہم نے اپنے پاکستانی دوست آصف صدیقی سے رازداری کے ساتھ اس وقت پوچھا ،جب ہم ان کی گاڑی میں سفر کررہے تھے اور ہمیں روسی خفیہ اداروں کی جاسوسی کا بھی بظاہر کوئی ڈر نہیں تھا۔ وہ اپنے مخصوص دہلوی لہجے میں بولے ’’بھائی، اب بہت سکون ہے‘‘۔ انہوں نے ’’اب‘‘ کو پان کے ساتھ چباتے ہوئے گویا حالات کی بہتری کی نوید سنائی تو ہم نے حیرت سے پوچھا ’’اچھا پہلے حالات خراب تھے ؟‘‘ بولے ’’جی ہاں! جب 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹا تو بہت برا حال تھا اور بدقسمتی سے میں اسی دوران روس آیا۔ ہر طرف افراتفری اور مارا ماری تھی۔ روس کے دیگر شہروں کی طرح سینٹ پیٹرزبرگ میں بھی مافیاز کے گرگوں کا راج تھا جو آئے دن مار دھاڑ اور لوٹ مار کرتے تھے۔ غیر ملکی ان کا خصوصی نشانہ بنتے تھے۔ صورت حال یہ تھی اگر آپ نے جان کی امان کے ساتھ روس میں رہنا اور کاروبار کرنا ہے تو کسی نہ کسی مافیا کو بھتہ دینا ہوگا ورنہ جان کی حفاظت کی ضمانت ہے نہ مال اور آبرو کی۔ میں تو خود کئی سال تک500 ڈالر ماہانہ بھتہ دیتا رہا ہوں۔ (ہم نے لقمہ دیا کہ آپ کو ایم کیو ایم کی کمی تو محسوس نہیں ہوئی ہوگی) مگر پیوٹن نے آکر سب کو سیدھا کر دیا۔
پاکستانی نژاد روسی شہری آصف صدیقی جو ہم وطنوں کی میزبانی کیلئے بے تاب رہتے ہیں
آصف صدیقی کا کہنا تھا کہ پیوٹن سے پہلے کا روس آپ اگر دیکھ لیتے تو خوفزدہ ہوجاتے۔ ہر طرف ہاہاکار، چھینا جھپٹی اور غنڈا گردی تھی۔ اگرچہ کاروبار بھی چل رہے تھے، منافع بھی مناسب تھا۔ مگر غیر یقینی ایسی کہ کل کا کچھ پتہ نہیں۔ بس سمجھئے اپنا کراچی والا حال تھا۔‘‘ بھائی آصف نے گویا دریا کوزے میں بند کر دیا تو ہم نے بھی اگلا سوال داغا ’’سینٹ پیٹرز برگ میں پاکستانی کتنے ہیں؟‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’یہی کوئی دو سے ڈھائی سو ہوں گے۔ بلوچ بھی ہیں، پختون بھی۔ گجرات کے لوگ البتہ زیادہ ہیں۔‘‘ اس پر ہمیں حیرت بالکل نہیں ہوئی کہ گجرات اور جہلم کے پاکستانی بھائی یورپ کے ہر حصے میں ’’وافر مقدار‘‘ میں پائے جاتے ہیں۔ اس منزل کے حصول کے لیے وہ بند کنٹینرز میں سفر اور بارڈر سیکورٹی فورسز کی گولیوں کا سامنا کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ’’اچھا یہاں افغان باشندے بھی ہوں گے ؟‘‘ ہمارے سوال پر آصف نے قہقہہ لگایا ’’وہ تو چھائے ہوئے ہیں بھائی۔ یہاں کی کئی مارکیٹوں میں ان کا راج ہے، کپڑے، بیڈ شیٹس، الیکٹرانکس، ہر قسم کا کاروبار کرتے ہیں۔ پنجاب سے آنے والے زیادہ تر لڑکے انہی کے پاس کام کرتے ہیں۔ نئے لڑکوں کو 20 ڈالر یومیہ معاوضہ دیتے ہیں۔ اس سے ان کا اچھا گزارا ہو جاتا ہے۔‘‘
آصف صدیقی کی گفتگو ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ہمارا ہوٹل آگیا۔ ہم آج محلات کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں تھے جو روس میں ہمارا آخری پڑائو تھا، مگر یہاں آنا کیسے ہوا اور اگلے دو دن کا تجربہ کیسا رہا؟ اس پر انشااللہ کل بات ہوگی (جاری ہے)