قسط نمبر: 14
سجاد عباسی
رات تقریباً ساڑھے 8 بجے ہم وفد کے دیگر ارکان کے ہمراہ کوسٹر میں سوار ہو کر سینٹ پیٹرز برگ کے ساحلی علاقے REPINO کیلئے روانہ ہوئے۔ اندھیرا ہونے کی وجہ سے مناظر واضح نہیں تھے، مگر دلکش عمارتوں سے پھوٹتی روشنیاں ماحول کو اپنے سحر میں جکڑے ہوئے تھیں۔ راستے میں ایک طویل پل پر تیز رفتار بس کوئی 10 منٹ تک چلتی رہی۔ ہمیں بتایا گیا کہ سینٹ پیٹرز برگ شہر میں داخلے اور اخراج کیلئے دو ایکسپریس ویز بنائے گئے ہیں، یہ ان میں سے ایک ہے۔ دن بھر کے سفر کی تھکان نے تقریباً ایک گھنٹے کی اس مسافت کو یوں سکون آور بنا دیا کہ کھڑکیوں سے آنے والی تازہ اور سرد ہوا، رات کی گھمبیر خاموشی اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی روشنیاں بہت راحت بخش تھیں۔ ہماری منزل لب ساحل واقع باخروما (BAKHRUMA) آذربائیجانی ریسٹورنٹ تھا۔ جہاں اعزازی قونصل جنرل عبدالرئوف رند نے وفد کا پرتپاک استقبال کیا۔ یہ جان کر مسرت ہوئی کہ رند صاحب گزشتہ بارہ برس سے اس منصب پر فائز ہیں اور کم و بیش تین حکومتوں سے پاکستان اور روس کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس عہدے پر بدستور ان کی موجودگی اس امر کی گواہ ہے کہ ہر حکومت ان کی کارکردگی سے مطمئن ہے۔ ان کا تعلق بلوچستان کے قلعہ سیف اللہ سے ہے۔ کہانی ان کی بھی زیادہ مختلف نہیں کہ 80ء کی دہائی میں اعلیٰ تعلیم کیلئے ماسکو گئے اور وہیں کے ہو رہے۔ نہ صرف خود اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، بلکہ ان کے بیٹے اور بیٹی نے بھی ڈاکٹریٹ کر رکھا ہے۔ ان کا ذاتی کاروبار بھی ہے اور پاکستان سے روس برآمد ہونے والے کینو کی تجارت کو فروغ دینے میں بھی مصروف ہیں۔
اعزازی قونصل جنرل عبدالرؤف رند
عبدالرئوف رند نے بتایا کہ وہ بہانے بہانے سے پاکستانی ثقافت کو اجاگر کرنے کیلئے مختلف پروگرام منعقد کرتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے حال ہی میں انہوں نے ملبوسات کی نمائش بھی منعقد کرائی، جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے روایتی ملبوسات متعارف کرائے گئے تھے۔ علاوہ ازیں سینٹ پیٹرز برگ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے چھوٹے موٹے مسائل کے حل کیلئے بھی کوشاں رہتے ہیں اور ماسکو میں پاکستانی سفارت خانے اور پاکستانیوں کے درمیان پل کا کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔ بہرحال عبدالرئوف رند کا شمار ان پاکستانیوں میں ہوتا ہے جو بیرون ملک، پاکستان کی شناخت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان کا عشائیہ خاصا پرتکلف تھا اور ہم سب کا مرغوب بھی اس لئے ثابت ہوا کہ جہاں سجّی، ملائی بوٹی اور کڑاہی سمیت تمام پاکستانی اور حلال ڈشوں کا انتظام تھا، وہیں رند صاحب ہر مہمان کی پلیٹ میں بہ اصرار وزن بڑھا رہے تھے۔ اس طرح لذیذ کھانے کے ساتھ پر خلوص میزبانی نے لطف دوبالا کردیا۔ یہ ایک آذربائیجانی ریسٹورنٹ تھا جہاں کھانا سرو کرنے والی بھی زیادہ تر وہیں کی خواتین تھیں۔ جبکہ ہمارے آس پاس کی ٹیبلز پر ایک بار پھر روس میں ’’شخصی آزادی‘‘ کے مناظر بکھرے پڑے تھے۔مگر یہ مناظر ہمارے لئے اس واسطے بھی زیادہ دلچسپی کے حامل تھے کہ یہاں ہر طرف خواتین اپنے مرد پارٹنر کے ناز اٹھاتے دکھائی دے رہی تھیں۔یعنی معاملہ وطن عزیز کے برعکس تھا۔ کہیں کوئی شربت انگور کی لذت سے مدہوش ساتھی کو سہارا دے کر سیدھا کر رہی ہے، تو کوئی خاتون ٹشو پیپر سے ساتھی کے رال خشک کرنے میں مصروف ہے اور پے در پے بوسوں کے ساتھ ہونٹوں کے مخصوص زاویے سے پچکار بھی رہی ہے۔دراصل روس میں وجود زن کی بہتات نے طلب اور رسد میں عدم توازن پیدا کر دیا ہے اور یہ مناظر کسی عدم توازن کا شاخسانہ تھے۔
ٹورسٹ پوائنٹ ہونے کی وجہ سے مہمانوں میں کئی غیر ملکی بھی شامل تھے۔ کھانے کے بعد ہوٹل کے عقب میں ساحل کا نظارہ بھی کیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہاں سے صرف 180 کلومیٹر کے فاصلے پر فن لینڈ واقع ہے اور دو گھنٹے میں لوگ وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ دونوں طرف کے لوگوں کی آزادانہ آمد و رفت جاری رہتی ہے جبکہ دوسری جانب کوئی دگنے فاصلے پر ناروے واقع ہے۔ یہ دونوں ملک بھی خوبصورتی کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں۔ رات ساڑھے گیارہ بجے کے قریب رند صاحب سے اجازت لے کر ہم دوبارہ ہوٹل روانہ ہوئے تو لذیذ کھانے اور دانہ گندم کے خمار نے تھوڑی ہی دیر میں بے سدھ کردیا اور سوتے جاگتے ہم نصف شب کو ہوٹل پہنچ گئے۔
روس میں قیام کو آج چھ روز ہو چلے تھے۔ صبح سویرے جب ہم نے آئینے میں اپنا تنقیدی جائزہ لیا تو مونچھیں کچھ بے قابو سی ہو رہی تھیں۔ شیونگ کا سامان تو موجود تھا جس سے ہم یومیہ بنیادوں پر استفادہ بھی کر رہے تھے۔ مگر سامان میں قینچی شامل نہیں تھی۔ بین الاقوامی پروازوں پر اس ’’ مہلک‘‘ ہتھیار کی اجازت نہیں دی جاتی چاہے اس کا سائز کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔ ہمیں خیال آیا کہ کیوں نہ باہر چل کر باربر شاپ سے یہ کام کرا لیا جائے۔ اس بہانے صبح کے نظارے بھی ہو جائیں گے اور سیر بھی۔ واپس آ کر ناشتہ کرلیں گے کیونکہ گیارہ بجے ہمیں ہرمٹیج میوزیم جانا تھا جس میں ابھی تین گھنٹے باقی تھے، سو ہم ٹراؤزر شرٹ میں ہی کمر ے سے نکل پڑے۔ چھٹی منزل سے نیچے اترتے ہوئے خیال آیا کہ نائی کی دکان کہاں ہے یہ کون بتائے گا؟ ادھر ’’زبان یار من روسی‘‘ والا مسئلہ اپنی جگہ موجود ہی تھا۔ خیر استقبالیہ کائونٹر پر تین خواتین اور ایک نوجوان موجود تھے جنہوں نے تقریباً کورس کے انداز میں ہمیں خوش آمدید کہا۔ ہم پر اسدرجہ التفات کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہوٹل میں موجود باقی لوگ اب تک سو رہے تھے اور اتنی صبح سویرے باہر سے بھی کوئی آنے والا نہیں تھا۔ خیر چونکہ ہمیں نائی کی دکان کا پتہ پوچھنا تھا جو خواتین کا شعبہ نہ تھا، لہٰذا ہم نے بادل ناخواستہ نوجوان کی طرف روئے سخن کر کے پہلے تو باربر شاپ کہہ کر پوچھا اور ساتھ ہی دو انگلیوں کی قینچی بنا کر مونچھوں پر پھیر دی۔ اس دہری کوشش کا فوری فائدہ ہوا اور اس نے مسکراتے ہوئے ’’جسٹ اے منٹ‘‘ کہا اور جھٹ سے ایک کاغذ پر پرنٹ نکال دیا جس پر ہوٹل کے اطراف میں تین باربر شاپس کی نشاندہی کی گئی تھی۔
ان میں سے کم ترین فاصلے پر واقع دکان7 سو میٹر پر ے تھی۔ نوجوان نے ہمیں ہاتھ کے اشارے سے سمجھا بھی دیا کہ بالکل سامنے والی اسٹریٹ جہاں ختم ہوتی ہے، وہاں سے دائیں مڑنا ہے کچھ ہی فاصلے پر بابر شاپ آئے گی۔ ہم نے ویسا ہی کیا اور دائیں مڑنے سے پہلے ایک بڑے گروسری اسٹور کو ذہن میں ’’مارک‘‘ کر کے تسلی کر لی کہ واپسی پر یہاں سے مڑنا ہے، لہٰذا گم ہو جانے کا کوئی خدشہ نہیں۔ اب ہم اس سمت چل پڑے جدھر کا بتایا گیا تھا۔ البتہ ایڈریس والا کاغذ فولڈ کر کے ہم نے جیب میں رکھ لیا۔ صبح کا منظر نہایت شفاف اور اجلا تھا۔ سڑک کے دونوں اطراف خوبصورت عمارتیں اس شہر کے جادوئی حسن کو بڑھا رہی تھیں۔ گاڑیاں ایک ترتیب سے رواں دواں تھیں۔ کشادہ سڑک کے دونوں طرف فٹ پاتھ پر کچھ لوگ اپنے دفاتر جبکہ طلبا وطالبات اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کی جانب جا رہے تھے۔ صبح کی تازہ ہوا اور خوشگوار سردی کے ساتھ دلکش مناظر نے گویا ہمیں مخمور کردیا۔ ہم اسی سڑک پر چلتے گئے جس کے بعد ایک پل دکھائی دے رہا تھا اس پل پر کچھ غیر ملکی سیاح کھڑے مناظر فلمبند کر رہے تھے۔
دراصل کسی نئے شہر کوسیاحت کے نقطہ نظر سے دیکھنا ہو تو صبح کا وقت سیر کیلئے موزوں ترین ہوتا ہے، جب ہجوم کم اور مناظر شفاف ہوتے ہیں جبکہ چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی پوری طرح بیدارہوتی ہے۔ اگلے دو تین منٹ میں ہم اس پل پر پہنچ گئے۔ کیا خوبصورت منظر تھا۔ یہ پل ایک دریا نما نہر پر بنا تھا اور ٹائون کے ایک حصے کو دوسرے سے ملا رہا تھا۔ نہر کے دونوں طرف ایستادہ عمارتیں۔ آر پار سڑک پر چلتی گاڑیاں۔ نہر میں موج در موج چلتا شفاف پانی ہر منظرہی دلکش تھا۔ ہم کچھ دیر اس کے حسن میں کھوئے رہے اور پھر اس خیال سے واپسی کی ٹھانی کہ ابھی ناشتے اور تیاری میں بھی وقت لگنا تھا اور ایک گھنٹہ گزرتے پتہ ہی نہیں چلا۔ جب ہم واپس اسی سڑک پر روانہ ہوئے تو چند منٹ بعد ویسا ہی ایک پل دور سے دکھائی دیا تجسّس نے سر ابھارا۔ کیا دوسری طرف بھی اتنے ہی فاصلے پر کوئی نہر یا دریا ہے؟ قدم تیز ہوتے گئے اور دوسری جانب بھی ویسے ہی دلکش منظر نے ہمیں خوشگوار حیرت سے دوچار کردیا۔ منظر چونکہ یکساں تھا اور وقت کی قلت بھی آڑے آ رہی تھی۔ جبکہ ہوٹل کا راستہ بھی ڈھونڈنا تھا، لہٰذا ہم واپس مڑے اور باقی مناظر سے توجہ ہٹا کر صرف اس اسٹور کی تلاش پر مرکوز کردی جسے اپنے تئیں ہم زبانی یاد کر کے گئے تھے۔ یہ کوشش کامیاب ہوگئی اور اگلے دس منٹ میں ہم ہوٹل پہنچ گئے۔ اوپر جاتے ہوئے لفٹ میں نصب آئینے کی دیوار میں سراپا کا جائزہ لیا تو شیو بڑھی ہوئی اور مونچھیں اسی طرح بے قابو تھیں۔ یعنی سینٹ پیٹرز برگ کے حسن میں کھو کر ہم اصل کام بھول گئے تھے۔ ہم دل ہی دل میں اس پر مسکرا دیئے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم اتنی خوبصورت صبح اور دلنشیں نظاروں سے محروم رہ جاتے۔ تب ہمیں زمانہ طالب علمی میں پڑھی گئی کسی نا معلوم شاعر کی ایک خوبصورت نظم یاد آ گئی جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک خوبصورت منظر کو اس سے زیادہ دلکش منظر کس طرح بے معنی کردیتا ہے۔ آپ بھی لطف اٹھائیے:
بانسری کے حسیں سُر سجے تو کہیں
ایک چرواہے کی تتلیاں کھو گئیں
راہ چلتے ہوئے ایک معصوم کو
دلنشیں دلنشیں تتلیاں مل گئیں
راستہ کھو گیا
قافیوں سے خیالوں کو جاتے ہوئے
تیری یاد آ گئی
قافیہ کھو گیا
حسن جس روپ میں ،جب کبھی آ گیا
کچھ نہ کچھ ہو گیا
کچھ نہ کچھ کھو گیا
(جاری )