گستاخانہ مواد کی روک تھام کے لیے میڈیا کا کردار

سید مجتبیٰ رضوان .

.مسلمانان عالم آزادئ اظہار رائے کے قائل ہیں تاہم اس آزادی اور دوسرے فرد کی توہین یا اس فرد کے عقیدہ میں شامل مقدس و محترم شخصیات کی توہین کو الگ الگ کرتے ہیں۔ آزادی اس حد تک تسلیم کی جا سکتی ہے کہ جب تک دوسرے کے جذبات کو مجروح نہ کیا جائے اور ایسا بیانیہ یا انداز کہ جس سے دنیا میں انتشار وافتراق کی کیفیت کو بڑھاوا حاصل ہو، آزادئ اظہار کے خلاف ہے، موجودہ حکومت نے اہلیان پاکستان اور اہلیان اسلام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے جو موقف اختیار کیا ہے وہ قابل تقلید اور لائق تحسین ہے, اس حوالے سے وزیراعظم پاکستان کی جانب گستاخانہ خاکوں کا معاملہ او آئی سی، اسلامی وزراء خارجہ، اسلامی سربراہی کانفرنس اور اقوام متحدہ میں اٹھانے کا عزم بلاشبہ قابل تحسین ہے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اس سلسلے میں قرارداد مذمت کا منظور ہونا پاکستانی سیاسی زعماء اور عوام کی دینی حمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے سدباب کےلئے میڈیا اور اس سے وابستہ لوگوں کے فعال کردار پر زور دیتے اس امر کو اجاگر کیا ہے کہ میڈیا کے ذریعے گستاخانہ مواد کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ اس کے سدباب کےلئے متعلقہ قوانین اور حکومتی اقدامات سے متعلق عوامی آگاہی بھی بہت ضروری ہے ۔سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی اطلاع فوری طور پر پی ٹی آے، ایف آئی اے یا وزارت مذہبی امور کو کی جائے۔واضح رہے کہ سنہ 2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز مواد شائع کیا جارہا ہے لہٰذا ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

اس وقت کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ایف آئی اے کو اس معاملے کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا۔یاد رہےکہ 8 جنوری 2021 کواسلام آباد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام سے متعلق گستاخانہ مواد شائع کرنے کا جرم ثابت ہونے پر تین افراد کو موت جبکہ ایک مجرم کو دس سال قید کی سزا سنا دی تھی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے 2018 میں درج کیے جانے والے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے تین مجرمان ناصر احمد سلطانی ،عبدالوحید اور رانا نعمان کو موت کی سزا جبکہ پروفیسر انوار کو دس برس قید کی سزا دی تھی,مجرمان کو توہین مذہب کے قانون 295 سی کے تحت موت کی سزا سنائی گئی ہے اُنھیں انسداد دہشت گردی کے ایکٹ سات کے تحت پانچ پانچ سال قید اور پچاس ہزار روپے جرمانہ بھی کیا گیا, مقدمے کی تفتیش کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق مجرم ناصر احمد سلطانی کا تعلق پنجاب کے ضلع جھنگ سے ہے اور مجرم نے پیغمبر ہونے کا دعوی بھی کیا تھا اس کے علاوہ دیگر دو مجرمان کا تعلق صوبہ سندھ کے شہر کراچی سے ہے اور اُنھوں نے سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کیے تھے۔وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کی طرف سے دستیاب تفصیلات کے مطابق وزارت نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی روک تھام کیلئے میڈیا کے اہم کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے جامع رہنما اصول وضع کئے ہیں جس کے مطابق اس وقت وطن عزیز میں تقریبا 10 کروڑ سے زائد لوگ سوشل میڈ یا استعمال کر رہے ہیں اور اس پلیٹ فارم پر گستاخانہ و توہین آمیز مواد کی ‏ ‏برائی تیزی سے پھیل رہی ہے۔

اس ضمن میں ایک مثال پیش کرتے ہوئے بتایا گیا کہ مواد کے پھیلائو کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چار افراد نے مل کر 2019 میں بلاسفیمی کا ایک گروپ بنایا۔ 2022 میں ایف آئی اے سائبر کرائم نے ان چاروں کو گر فتار کر لیا لیکن جب وہ گرفتار ہوئے تو اس گروپ کے ممبران کی تعداد 32 ہزار سے زائد ہو چکی تھی لہٰذا ‏ اس وباء پر قابو پانا چند افراد کے بس کی بات نہیں اس کے لیے پوری قوم کو کردارادا کرنا ہو گا،حکومتی اداروں کوجہاں اپنی ذمہ داریاں ادا کر نی ہیں وہیں میڈیا اور اس سے وابستہ لوگوں کا فعال کردار بھی اس سلسلے میں انتہائی اہم ہے۔ وزارت نے اس ضمن میں متعدد اقدامات تجویز کئے ہیں جو اس برائی کے سدباب میں نہایت کارگر ثابت ہو سکتے ہیں ۔ وزارت مذہبی امور وبین المذاہب نے اس امر پر زور دیا کہ میڈیا کے ذریعے جہاں ایسے مواد کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے وہیں پاکستان کے متعلقہ قوانین اور حکومتی سطح پر موجود گستاخانہ مواد کے سد باب کے انتظام سے متعلق عوامی آگاہی بھی بہت ضروری ہے۔تاکہ عوام الناس ایسے کسی بھی مواد کے حوالے سے انتہائی احتیاط سے کام لیں۔ اس امر کو بھی اجاگر کیا گیا کہ میڈیا اس معاملے میں والدین کے لیے بھی خصوصی مہم چلائے کہ موجودہ حالات میں والدین کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے ۔جو والدین اپنے بچوں کو موبائل ، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کرتے ہیں ، وہ اس بات پر بھی نظر رکھیں کہ ان کے بچے سوشل میڈیا پہ کیا دیکھتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کے بچے نادانی میں کسی غلط رستے پر چل پڑیں، اور فحش ویڈیوز سے ہوتے ہوئے گستاخی تک نہ جا پہنچیں۔ توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے اس دور میں سیرت نبوی کے انسانیت وشرافت ومکارم اخلاق پر مشتمل پیغام کو نہایت موثر اور پر اثر انداز میں پیش کیا جائے ، تحریری، تقریری، چھوٹے چھوٹے کلپس وغیرہ کی شکل میں خصوصا اخلاق ومکارم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف زبانوں میں پیش کیا جائے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرامن اور قابل احترام شخصیت کے قابل اقتداء پہلو ونمونے اجاگر ہوں ، اس طرح اس موقع کو خصوصا سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عام کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق پروگرامات ٹیلی کاسٹ کیے جائیں تاکہ عبادات واخلاق ، معاملات ومعاشرت میں اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا کر حقیقی مسلمان کے کردار کو پیش کر کے اس گستاخی کا بخوبی جواب دیا جا سکتا ہے۔ میڈیا پر زور دیا گیا کہ آزادی اظہار رائے کے درست استعمال اور اس کی آڑ میں کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کی دل آزاری اور انہیں تکلیف پہنچانے کی سنگینی سے متعلق آگاہی کو عام کیا جائے۔ مذہب ، مذہبی مقدسات اور شخصیات کی توہین کو عالمی طور پر ناقابل قبول عمل قرار دینے کے لیے رائے عامہ ہموار کی جائے۔یقیناً اس طرح مذہبی انتہاء پسندی اور تشدد کا راستہ بھی مسدود ہو گا جبکہ عالمی طور پر خصوصا مغرب میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے اسلام کی حقیقی تشریح کے لیے اقدامات کیے جائیں اور اس سلسلے میں علماء واسکالرز کی آراء وخیالات سے استفادہ کیا جائے۔

وزارت مذہبی امور کی جانب سے امر کی اہمیت کی طرف بھی توجہ دلائی گئی کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مذہبی شخصیات کے تعاون سے مقدسات اور شخصیات کی توہین اور اس کی نشر واشاعت سے متعلق شعور وآگاہی پیدا کی جائے کہ ایسے جرائم کے مرتکب لوگوں کے لیے ملکی قوانین میں کیسی سخت سزائیں موجود ہیں۔اسی طرح یہ تعلیم وآگاہی بھی پیدا کی جائے کہ ایسے کسی بھی واقعہ کی صورت میں عوام قانون کو ہاتھ میں لینے کی بجائے قانون کے مطابق کاروائی کو یقینی بنانے کی کوشش کریں۔ فرط جذبات، اشتعال اور کسی بھڑکاوے میں آ کر ہر گز قانون اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔

وزارت نے عوام کو مشورہ دیا کہ سوشل میڈیا میں کسی بھی جگہ اگر کوئی گستاخانہ مواد نظر آئے تو ہر گز شیئر یا کسی کو فارورڈ نہ کریں بلکہ اسے پی ٹی اے کو , ایف آئی اے یا وزارت مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی کو فوری اطلاع دیں۔ یہ یاد رہے کہ 22 دسمبر 2022 کواسلام آباد میں گستاخانہ مواد کی سوشل میڈیا پر روک تھام کے لیے آل پارٹیز کانفرنس لیگل کمیشن آن بلاسفیمی پاکستان کے زیر اہتمام منعقد ہوئی تھی جس میں ملک بھر کی دینی،سیاسی، سماجی شخصیات اور تمام مذاہب کے نمائندگان نے شرکت کی تھی۔لیگل کمیشن آف بلاسفیمی پاکستان کا توہین مذہب روکنے کے لئے تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا خوش آئند تھا.06 جنوری 2020 کوقومی اسمبلی اجلاس میں گستاخانہ مواد کی روک تھام کی قرارداد متفقہ طورپرمنظورکی گئی تھی۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ یہ ایوان اعادہ کرتا ہے کہ پیارے نبی اکرم، تمام انبیائے کرام، صحابہ کرام، امہات المومنین اور اہل بیت رضوان اللہ اجمین کی حرمت پرسب کچھ قربان ہے۔قرارداد میں کہا گیا تھا کہ یہ ایوان اعادہ کرتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں۔ پیارے نبی اکرم ،تمام انبیاء کرام، صحابہ کرام، امہات المومنین کے متعلق گستاخانہ مواد پر ایوان پرزورالفاظ میں پاکستان میں انٹرنیشنل اورپرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے کسی بھی گستاخانہ مواد کی مذمت کرتا ہے۔ مذکورہ مواد انتہائی گستاخانہ ہیں جن کی وجہ سےمسلمانوں کےجذبات شدید طور پر مجروح ہو رہے ہیں۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ایسے تمام مواد کی پاکستان بھر میں درآمد، اشاعت اور فروخت پر فوری پابندی عائد کی جائے۔اس ضمن میں خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے جو کہ معاملات کی چھان بین کر کے رپورٹ پیش کرے۔گستاخانہ مواد کی اشاعت اب عالمی سطح پر سوشل میڈیا پر ہورہی ہیں۔اسے رکوانے کے لئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے۔ فیس بک جیسی بڑی کمپنیاں ایک ملک کی رائے کو احترام دینے کے لئے تیار نہ ہیں۔ لہذا کوشش مسلم ممالک کی سطح پر یا عالمی سطح پر ہی موثر ہوسکتی ہے۔
مسئلہ صرف اسلام اور اسکی مقدس ہستیوں کا ہی نہیں۔بلکہ تمام مذاہب کی مقدس ہستیاں کے بارے عالمی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ایسی قانون سازی جس پر اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے عمل درآمد بھی کرائیں۔مسلمان تو عیسائیوں اور یہودیوں کے مذاہب سے متعلقہ ہستیوں کے بارے کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ان مذاہب کے انبیاء بھی مسلمانوں کے لئے مقدس ہیں۔انٹرنیٹ نے جہاں بے شمار مثبت معلومات کوپہنچایا ہے۔وہیں منفی ذہن رکھنے والا مغرب اسلام پر کیچٹر اچھالنے کے لئے بھی اسی ذریعے کو استعمال کررہا ہے۔انٹرنیٹ سے پہلے بھی مغرب ایسے کام کرتا رہتا تھا۔لیکن تب قلم ،کتاب اور رسائل استعمال ہوتے تھے۔انکی پہنچ کم تھی۔لیکن اب تو سوشل میڈیا کے ذریعے بہت تیزی سے یہ کام ہورہا ہے۔بات تحریر سے آگے بڑھ کر خاکوں،فوٹوز،ویڈیوز اور فلموں تک پہنچ گئی ہے۔ویڈیوز کے وائیرل ہونے میں چند سیکنڈ ہی تولگتے ہیں۔ اس طرح گستاخانہ مواد اب پوری دنیا میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔مغرب والوں نے اسلام کا راستہ روکنے کے لئےگستاخانہ مواد کاطریقہ اپنایا ہے ان کے نزدیک اس کام کے کرنے سے اسلام پر اعتبار اور وقار بھی ختم ہوجائے گا۔مغربی مفکرین کے نزدیک تیزی سے پھیلتے ہوئے اسلام کا راستہ روکنے کا یہی طریقہ ہے۔ کہ گستاخانہ مواد کو وائیرل کیاجائے ۔چندسال پہلے ڈنمارک سے چھپنے والے رسالہ میں گستاخانہ حرکت کی گئی تھی۔ڈنمارک کی بہت سی کمپنیوں کے بائیکاٹ کے بعد تھوڑے عرصہ کے لئے یہ گستاخانہ کام رک گیاتھا۔ لیکن اب سوشل میڈیا کے مختلف شعبے جیسے فیس بک اور ٹوئیٹر وغیرہ کو استعمال کیاجارہا ہے۔اب مغرب سے بے شمار گستاخانہ مواد پھیلا رہا ہے ۔دنیا میں یہ بڑی سازش تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اسے رکوانے کے لئے بڑی سطح کی کوششیں ضروری ہیں۔ہمارے لئے اسلام کے احکامات وہدایات معلوم کرنے کا ذریعہ صرف اور صرف محمد عربیﷺ کی عظیم شخصیت ہے۔مغرب نے سوچ سمجھ کر انہی کی ذات کو نشانہ بنایا ہے۔دنیا کو یہ علم ہے کہ قرآن جیسی عظیم کتاب محمد عربیﷺ پر ناز ہوئی۔اس کتاب کی مکمل وضاحت نبی اکرمﷺ نے اپنی23۔سالہ نبوی زندگی میں کردی۔اسلام کے تمام احکامات،قوانین وہدایات کا منبع اول و آخر نبی اکرمﷺ کی ذات مقدس ہے۔ مغرب نے گستاخانہ مواد شائع کرنے کی سازش بہت سوچ سمجھ کر تیار کی ہے۔۔تمام مسلم ممالک متحد ہوکر اقوام متحدہ ,عرب لیگ اور او۔آئی۔سی پرآواز بلند کریں گے ۔یہ ملک صرف پاکستان نہیں بلکہ اسلامی جمہوری پاکستان ہے۔ پاکستان نے 2012 سے 2016 تک یوٹیوب کو اس وقت بلاک کر دیا تھا جب اس نے پیغمبر اسلام کے بارے میں فلم دکھائی جس کی وجہ سے پوری مسلم دنیا میں پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے۔حالیہ سالوں میں پاکستان نے انتہائی مقبول ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک کو بھی ’ناشائستہ‘ اور ’غیر اخلاقی‘ مواد پر کئی بار بلاک کیا۔04,جولائی 2021 کوہائیکورٹ نے انٹرنیٹ پر موجود توہین آمیز مواد ہٹانے سے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے 12 صفحات پر مشتمل فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کیلئے رہنماء اصول متعین کردیئے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے بارے میں پرائمری سے ماسٹرز تک مضامین شامل کئے جائیں، حکومت پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی) کی زیر نگرانی آئی ٹی ماہرین پر مشتمل اسپیشل سیل بھی تشکیل دے۔ عدالت نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا ویب سائٹس کے دفاتر پاکستان میں بنوانے پر زور دیا جائے تاکہ ان سے کارروائی کیلئے بات چیت ہوسکے، غیرمناسب مواد کی روک تھام کیلئے فوری ایکشن لیا جائے۔ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد پھیلانے پر تین افراد کو سزائے موت عدالت عالیہ کا کہنا ہے کہ توہین آمیز مواد کے بارے میں ہونیوالی کارروائی کو ویب سائٹ پراپ لوڈ کیا جائے تاکہ لوگوں کو آگاہی ملتی رہے، آفیشل ویب سائٹ کی سوشل اور دوسرے میڈیا میں تشہیری مہم بھی چلائی جائے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ غیر مناسب مواد پر اگر کوئی شکایت نہ آئے تو اتھارٹی خود قانون کے مطابق کارروائی کرے۔ سماعت کے دوران عدالت نے چیئرمین پی ٹی اے سے بار ہا یہ سوال پوچھا کہ اگر فیس بک توہین آمیز مواد شیئر کرنے والے پیجز کو بلاک کرنے سے انکار کرے یا توہین آمیز مواد پھیلانے کے لیے نئے پیجز بنائے جائیں جو کہ آئین پاکستان اور قانون کے خلاف ہے جس سے پاکستان کی سالمیت پر بھی زد پڑ سکتی ہے تو کیا ایسی صورت میں ریاستی ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کریں گے؟۔ تفصیلی فیصلے کے مطابق پی ٹی اے کے چیئرمین نے عدالت کو بتایا کہ اگر مناسب وقت کے اندر متعلقہ پلیٹ فارم کی طرف سے ایسے مواد کو ہٹانے کے لیے کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو پی ٹی اے ایسے تمام سائٹس فوری طور پر بلاک کرے گا۔عدالت نے حکم دیا کہ گستاخانہ مواد والی ویب سائٹس اور پیجز کی نشاندہی کی جائے اور مواد کی نشاندہی کے بعد ویب سائٹس کے خلاف بلا تاخیر کارروائی کی جائے، گستاخانہ اور فحش مواد کے سنگین فوجداری نتائج سے عوام کو آگاہ کرنے کا سائنسی طریقہ کار وضع کیا جائے، مستقبل میں ایسے گستاخانہ مواد کی اشاعت روکنے کیلئے اقدامات کیے جائیں,پاکستان کے پینل قانون میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا قانون سیکشن 295۔اے (مذہبی جذبات ابھارنے، غم و غصہ پھیلانے)، 295۔ بی (قرآن کی بےحرمتی کرنا)، 295۔ سی (پیغمر اسلام کے نام کی بےحرمتی) اور 298 ۔ اے (پیغمبر اسلام کے خاندان، ان کے ساتھیوں یا کسی بھی خلیفہ کی بےحرمتی) ہیں۔ ان میں سے اکثر قوانین کے تحت جب الزام عائد کیا جاتا ہے تو پولیس کو اختیار ہے کہ وہ ملزم کو گرفتار کرسکتی ہے کسی وارنٹ کے بغیر اور اپنی تحقیقات مجسٹریٹ کی عدالت کے حکم کے بغیر تحقیقات کا آغاز کرسکتی ہے۔جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں وفاقی شرعی عدالت 1980 میں قائم کی گئی تاکہ وہ ‘جائزہ لے سکے اور اس بات کا فیصلہ کرسکے کہ کوئی قانون یا اس کا پہلو اسلامی تعلیمات کے خلاف تو نہیں ہے۔’ جب تک حکومت سپریم کورٹ کی شریعت ایپلیٹ کورٹ میں کامیاب اپیل نہیں کرتی، وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے حتمی ہیں۔وفاقی شرعی عدالت نے 1990 می جماعت اسلامی کی ایک درخواست کے جواب میں فیصلہ دیا کہ 295 ۔ سی کے قانون کے تحت سزائے موت لازم ہے۔ اس وقت وزیر اعظم نواز شریف کی مذہبی طور پر قدامت پسند حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی تھی جس سے یہ پاکستان کی تمام عدالتوں میں لازم قرار پائی تھی۔جنرل محمد ضیاء الحق (1977-1988) کے مذہبی طور پر قدامت پسند دور میں توہین مذہب کے خلاف اضافی قوانین متعارف کروائے گئے جو خصوصی طور پر اسلام سے متعلق تھے۔ ان میں سیکشن 295۔بی (1982)، 295۔سی (1986)، 298۔اے (1980)، 298۔ بی اور 298۔ سی (دونوں 1984) میں شامل ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مذہب سے متعلق جرائم کی سزاؤں کی ابتدا برٹش انڈیا، جس میں وہ علاقے بھی شامل ہیں جو آج پاکستان ہیں، کے نوآبادیاتی دور میں ہوئیں۔ اس کا جواز یہ تھا کہ ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی تشدد کو روکا جاسکے۔ ان میں سیکشن 295، 296، 297 اور 298 شامل تھے جو 1860 میں متعارف کروائے گئے۔ 295-اے بعد میں 1927 میں شامل کیا گیا تھا۔1927میں لاہور کے ایک ہندو پبلشر راج پال نے نبی کریمؐ کے بارے میں ایک گستاخانہ کتاب شائع کی۔ مسلمانوں کے احتجاج پر راج پال کے خلاف مقدمہ قائم ہوا اور لاہور کے ایک سٹی مجسٹریٹ نے اُسے چھ ماہ قید کی سزا بھی دی لیکن ہائیکورٹ کے جج کنور دلیپ سنگھ نے راج پال کو رہا کر دیا۔ اس رہائی پر مسلمان سراپا احتجاج بن گئے اور پھر ایک دن غازی علم دین نامی نوجوان نے راج پال کو قتل کر دیا۔علامہ اقبالؒ نے غازی علم دین کو سزا سے بچانے کے لئے بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کو وکیل بنایا لیکن غازی علم دین کو پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ 1929میں غازی علم دین کو پھانسی ہوئی اور 1930میں علامہ اقبالؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے الٰہ آباد اجلاس میں وہ تقریر کی جس میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مملکت کا باقاعدہ تصور پیش کیا گیا۔1931میں ریاست جموں و کشمیر میں توہینِ اسلام کے کچھ واقعات پیش آئے جس کے ردِعمل میں مسلمانوں نے احتجاج کیا اور پھر 13جولائی 1931کو سرینگر میں 21 مسلمان شہید کر دیے گئے۔ ان مسلمانوں کی شہادت پر 14اگست 1931 کو باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں علامہ اقبالؒ کی صدارت میں جلسہ ہوا اور یہیں شاعر مشرق نے پہلی دفعہ مسلمانوں کے لئے آزادی کا مطالبہ بھی کیا۔دنیا میں کہیں بھی نبی کریمﷺ کے بارے میں گستاخی ہوتی ہے تو پاکستان کے مسلمان اسے اپنے ایمان پر حملہ سمجھتے ہیں۔سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے 16 مارچ 2017 کو وفاقی وزیر داخلہ اور دفتر خارجہ کو سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی بندش کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کا حکم دیتے ہوئے کہاتھا کہ گستاخی کے ذمے داروں کو بلاتاخیر کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ رسول پاک حضرت محمدؐ سے محبت و عقیدت ہر مسلمان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے، یہ ہمارے دین کی اساس ہے، حضورؐ کی شان میں کسی بھی طرح کی گستاخی ناقابل معافی ہے، اس سلسلے میں کسی بھی سطح پر کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔