پچھلے برس ملک بھر میں 320 کیس قائم کیے گئے-کئی برس قید کی سزا ہوسکتی ہے، فائل فوٹو
 پچھلے برس ملک بھر میں 320 کیس قائم کیے گئے-کئی برس قید کی سزا ہوسکتی ہے، فائل فوٹو

اداروں کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلانے والوں کے گرد گھیرا تنگ

عمران خان :
ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کے ڈائریکٹوریٹ سائبر کرائم ونگ میں ملک میں اور بیرون ملک سے ریاستی اداروں اور شخصیات کے خلاف مذموم پروپیگنڈا مہم چلانے والوں کے خلاف کارروائی کے لئے خصوصی تفتیشی سیل ( اسپیشل انویسٹی گیشن سیل ) قائم کردیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ پچھلے کافی عرصہ سے تحریکِ انصاف کے حامیوں اور سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے قومی اداروں کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔

’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز بشمول فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ اور دیگر سائٹس پر ملکی اداروں کے خلاف منفی مہم چلانے والوں کے خلاف کارروائیوں کو جلد نمٹانے اور مستقل بنیادوں پر چلانے کے لیے اسے 2 درجہ بندیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ وزارت دفاع، وزارت خارجہ اور ریاستی اداروں کی خصوصی ہدایات اور درخواستوں کی روشنی میں ملک میں موجود شرپسند عناصر کے خلاف انکوائریوں کی خاطر ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز سے ان کے علاقوں اور شناختی کوائف کی نشاندہی ہونے کے بعد، ان کی تفصیلات متعلقہ صوبوں کے سائبر کرائم ونگز کے حکام کو ارسال کی جا رہی ہیں۔ جب کہ بیرون ملک سے سوشل میڈیا پر ملکی اداروں کو بدنام کرنے والے اور اشتعال انگیز مواد اپ لوڈ کرنے والوں کی چھان بین کرنے کے بعد، ان سے متعلق تفصیلات بھی متعلقہ صوبوں کے آئی جی دفاتر کو ارسال کی جا رہی ہیں۔ تاکہ ان کے آبائی شہروں کے متعلقہ تھانوں میں ان کے خلاف مقدمات درج کیے جاسکیں۔

معتبر ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ بیرون ملک بیٹھے ان ریاست دشمن سوشل میڈیا صارفین کے پاکستان میں موجود قریبی عزیزوں سے چھان بین کے علاوہ، ان کے قومی شناختی دستاویزات بشمول شناختی کارڈز اور پاسپورٹ وغیرہ منسوخ کرنے کی کارروائی بھی کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی ان کو قانونی گرفت میں لانے کے لیے انٹر پول کے ذریعے متعلقہ ممالک کے حکام سے بھی رابطوں پر عمل در آمد شروع کردیا گیا ہے۔ جس کے لئے تمام صوبائی آئی جی دفاتر اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹوریٹ آف انٹرپول میں قانونی معاملات جلد نمٹانے اور کیس بھجوانے کے لیے خصوصی سیل قائم کردیا گیا ہے۔

اہم ذرائع کے بقول سوشل میڈیا پر ملکی اداروں کے خلاف منفی مہم چلانے والوں کے خلاف یہ سیل ان تمام رپورٹوں کی روشنی میں قائم کیا گیا ہے، جن میں گزشتہ ایک برس کے دوران پاکستان میں پیش آنے والے متعدد واقعات کے بعد چلنے والی سوشل میڈیا مہمات پر تفتیش کی گئی۔ اور ایسے سینکڑوں سوشل میڈیا اکائونٹس کا سراغ لگایا گیا جو نہ صرف پاکستانی اداروں کی ساکھ کو دنیا بھر میں مجروح کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ بلکہ ازلی دشمن بھارت سمیت کئی اور ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے آشیرواد سے چلائے جا رہے ہیں۔

ایسے سوشل میڈیا اکائونٹس جب کوئی نیا ٹرینڈ بناتے ہیں تو پاکستان مخالف بیرونی عناصر کو اس کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ذرائع کے بقول اس تفتیش کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی افرادی قوت اور عدالتوں میں پیش آنے والی مشکلات کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔ تاکہ ملک کے اندر موجود ایسے عناصر کے خلاف پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 یعنی پیکا ایکٹ کے ذریعے انکوائریوں کا عمل مکمل کرکے مقدمات قائم کئے جائیں۔ جب کہ بیرون ملک موجود شر پسند عناصر کے اکائونٹس کی تعداد چونکہ بہت زیادہ سامنے آرہی ہے، اس لیے ان کے خلاف ہونے والی قانونی کارروائی کئی ماہ تک چلنے کے امکانات موجود ہیں۔ چناں چہ ان کے آبائی علاقوں کے تھانوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جہاں پاکستان پینل کوڈ کی فوجداری دفعات کے ساتھ ملک کی اور اداروں کی ساکھ کو متاثر کرنے اور ملک دشمن سرگرمیاں انجام دینے کے حوالے سے خصوصی قوانین کی دفعات شامل کرکے مقدمات قائم کئے جائیں گے۔

ان مقدمات کی تفتیش میں مذکورہ افراد کی شناخت کی تمام تر معلومات حاصل کرکے پاکستان میں موجود ان کے اہل خانہ سے تفتیش میں مدد لی جا سکتی ہے۔ جب کہ عدالتوں میں ان کے خلاف چالان پیش کرکے ان کو مفرور قرار دلانے کے بعد ان کے دائمی ناقابل ضمانت وارنٹ حاصل کرکے انٹر پول کو ان کی کیس فائل فراہم کرنے کے بعد گرفتاریوں اور وطن واپس لانے کے لیے ریڈ نوٹس کا اجرا بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ یہ قانونی عمل متعلقہ صوبوں کے آئی جی دفاتر اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹوریٹ انٹر پول کی مشترکہ کوششوں سے انجا م دیا جائے گا۔ جس کو جلد نمٹانے کے لیے خصوصی مشترکہ کمیٹیاں بھی قائم کردی گئی ہیں۔

ذرائع کے مطابق اسی پروسس کے تحت بیرون ملک بیٹھ کر سوشل میڈیا پر پاکستانی اداروں پر کیچڑ اچھالنے والوں کیخلاف ایک ہفتے قبل کارروائی شروع کردی گئی گھی۔ اس ضمن میں سعودی عرب میں مقیم سید ولی نامی شخص کے خلاف پشاور میں اس کے آبائی علاقے کے تھانے شرقی میں مقدمہ درج کیا گیا۔

مقدمہ میں ریاستی اداروں کے خلاف شر انگیز بیانات اور گالم گلوچ کی دفعات شامل ہیں۔ تفتیش کے بعد عبوری چالان پیش کرنے کے فوری بعد پولیس ملزم کو عدالت سے اشتہاری اور مفرور قرار دلانے کی کارروائی کر رہی ہے۔ جبکہ عدالت سے وارنٹ حاصل کرنے کے بعد ملزم کی واپسی کے لیے بذریعہ انٹرپول سعودی حکام سے رابطہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

ذرائع کے بقول 9 مئی کے سانحہ کے بعد اداروں کیخلاف سوشل میڈیا مہم چلانے والوں کیخلاف یہ پہلا مقدمہ ہے۔ ذرائع کے بقول اسپیشل انویسٹی گیشن سیل سائبر کرائم ونگ کی تفتیش اور سامنے آنے والے شواہد کی روشنی میں بیرون ملک سے سوشل میڈیا پر ملک مخالف مہم چلانے والوں کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزارت داخلہ کو متعلقہ تھانوں اور سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹرز کی جانب سے بھیجی جانے والی سفارشات کی روشنی میں ان کی قومی شناختی دستاویزات بھی منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ذرائع کے بقول 9 مئی سے قبل گزشتہ ایک برس کے دوران ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے تحت گزشتہ ریاستی اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈا مہم چلانے کے الزام میں ملک بھر میں 320 مقدمات درج کیے گئے۔ ملزمان کے خلاف بیشتر مقدمات میں حتمی چالان پیش کردیئے گئے ہیں۔ ملوث افراد کو کئی برس کی سزا ہوسکتی ہے۔

گزشتہ برس یعنی 2022ء کے دوران ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی ٹیموں کی جانب سے سوشل میڈیا پر سرگرم ریاست دشمنوں کے خلاف بڑے پیمانے پر پہلی مرتبہ آپریشن اس وقت شروع کیا گیا، جب اگست 2022ء میں فوجی ہیلی کاپٹر کے حادثے میں سدرن کمان کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز خان سمیت 5 اعلیٰ افسران کی شہادت کو ایک انتہائی منفی رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ سوشل میڈیا پر چلنے والے ٹرینڈز اور مذموم مہم میں پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے مختلف اشتعال انگیز ٹوئٹس کے ذریعے اس واقعہ کو عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے مبینہ سازش میں شریک کرداروںسے جوڑنے کا تاثر دیا گیا۔

ایف آئی اے ذرائع کے بقول اس کریک ڈائون کے نتیجے میں ہونے والی انکوائریوں اور مقدمات پر اب تک تحقیقات جاری ہیں، جن میں 30 سے زائد ایسے پی ٹی آئی حامیوں کو گرفتار بھی کیا گیا، جن کے سوشل میڈیا اکائونٹس اس سانحے سے متعلق چلائی جانے والی مذموم مہم میں استعمال کیے گئے تھے۔