تحریر :۔محمد فاروق
”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے بس یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (تصدیق کیے بغیر) بیان کر دے۔“ (صحیح مسلم)
غلط اور گمراہ کن معلومات پر مبنی جھوٹی خبریں جو انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر شائع یا پھیلائی گئی ہوں معلومات کے حصول کے حوالے سے نقصان دہ ذریعہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ ایسی جھوٹی خبریں عموماً ویب سائٹ اور سوشل میڈیا ا کاونٹس/ پیجز کے زیادہ وزٹرز یا لائیکس حاصل کرنے کے لیے یا پھر کسی شخص، ریاستی ادارے یا اس کے ملازمین کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی نیت سے پھیلائی جاتی ہیں۔ صارفین آن لائن مواد ذرائع کی تصدیق کیے بغیراسے آگے بھی شئیر کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے جعلی خبریں نہ صرف تیزی سے پھیلتی ہیں بلکہ ”وائرل” بھی ہو سکتی ہیں۔
حتیٰ کہ کچھ لوگ اسلامی معلومات بغیر تصدیق کئے شیئر کرنا اپنا اخلاقی و مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ایک اور مثال کورونا وائرس کی وبا کے پھیلنے کے دوران سامنے آئی اس ضمن میں سوشل میڈیا پر صارفین کو جعلی خبروں کے حوالے سے کافی مشکلات کا سامنا درپیش رہا جب ہر جانب من گھڑت خبریں بغیر تصدیق کئے آگے پھیلائی جا رہی تھیں۔ سوشل میڈیا پر مضامین اور واٹس ایپ پیغامات کے ذریعے صارفین کو کرونا وائرس کے علاج اور ویکسین کے حوالے سے غلط معلومات پھیلائی گئی ہیں۔ ویکسین کے متعلق بتایا گیا کہ یہ ہسٹیریا کا باعث بنتی ہیں جس سے جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ایسے معاملات میں بہت سے لوگوں کو غلط/من گھڑت خبر، حتیٰ کہ غیر تصدیق شدہ مذہبی معلومات شیئر کرنے کے سنگین نتائج سے بالکل بھی آگاہی کا نہ ہونا ہے اور لوگ اس طرح کی معلومات پر نہ صرف خود یقین کر بیٹھتے ہیں بلکہ دوسروں سے بھی شیئر کر دیتے ہیں۔
لہٰذا ایسی جھوٹی اور من گھڑت خبروں پر قابو پانے کا سب سے بہتر طریقہ کار یہ ہے کہ کسی بھی ابلاغ کا حصہ بننے کے لئے تنقیدی نگاہ سے اس کا جائزہ لیا جائے۔ اس کے علاوہ ایسی خبروں کی تصدیق مختلف ذرائع سے کرنی چاہیے تاکہ کسی قسم کے ابہام کی گنجائش نہ رہے۔ جھوٹی خبریں اگر کسی اسکرین شاٹ کے ذریعے پھیلائی جا رہی ہے تو سب سے پہلے اس کی فارمیٹنگ کو چیک کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ عموما ایسی جعلی تصاویر متن میں املا اور ترتیب کی بھرپور غلطیوں کا امتزاج ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے آپ کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ آیا اس تصویر پر کوئی تاریخ بھی تحریر ہے اور آیا یہ ٹائم لائنز کے مطابق بھی ہے کہ نہیں۔ کیونکہ بسا اوقات پرانی خبروں کی تصاویر جب دوبارہ سامنے آتی ہیں تو لوگ اس پر موجود تاریخ کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ اس شخص کو جانتے ہیں جس نے جعلی خبریں شیئر کی ہیں، تو انہیں بتائیں کہ ان کی پوسٹ کردہ معلومات ممکنہ طور پر درست نہیں ہیں تاکہ وہ دوبارہ ایسا کرنے سے باز رہے۔
انٹرنیٹ/سوشل میڈیا پر جعلی/جھوٹی خبریں پھیلانا الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا 2016) کے تحت قابل سزا جرم ہے۔ اس کی سزا 3 سال تک قید یا 10 لاکھ جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہیں۔متعلقہ انٹرنیٹ/سوشل میڈیا (پلیٹ فارمز) سے جعلی خبریں ہٹانے کے لیے متاثرہ شخص پی ٹی اے کے آن لائن کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم (سی ایم ایس) کے ذریعے رپورٹ کر سکتا ہے۔ پی ٹی اے کی جانب سے متعلقہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ساتھ معاملات اٹھائے جا تے ہیں۔ تاہم صارفین ایسی شکایات کے فوری ازالے کے لئے متعلقہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو براہ راست رپورٹ کر سکتے ہیں کیونکہ یہ پلیٹ فارمز شکایت کے فوری حل کے لیے اپنے پلیٹ فارم پر ایسے جعلی/جھوٹے مواد کی براہ راست رپورٹنگ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز شکایت کنندگان سے براہ راست مزید معلومات (اگر درکار ہوں) بھی طلب کرتے ہوئے فوری کارروائی عمل میں لاتے ہیں۔ مزید رہنمائی کے لیے ہدایات، پی ٹی اے کی ویب سائٹ پر اپ لوڈکر دی گئی ہیں جس کے ذریعے تمام بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے شکایت کے اندراج کے طریقہ کار کے حوالے سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔واضح رہے کہ خبروں اور معلومات کے مستند اور قابل اعتبار ر ذرائع تک رسائی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔یہی وجہ ہے کہ پی ٹی اے پاکستانی انٹرنیٹ صارفین کو انٹرنیٹ تک محفوظ اور ذمہ دارانہ رسائی کے حوالے سے معاونت کے لئے ہمہ وقت کوشاں ہے۔