شہباز حکومت کی جان پیپلز پارٹی کے طوطے میں

سجاد عباسی

 

آصف علی زرداری ملک کے چودہویں صدر منتخب ہو گئے ۔وہ دوسری بار بھاری اکثریت کے ساتھ صدر منتخب ہونے والی پہلی سیاسی شخصیت ہیں۔

شاید ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم میں متمکن دونوں شخصیات اپنی مفاہمانہ روش کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں۔پھر بھی یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا مفاہمت کی یہ بیل منڈھے چڑھے گی یا بقول فیصل واوڈا کے کہانی دو سال سے آگے نہیں بڑھے گی۔۔۔؟

آصف علی زرداری کو "مفاہمت کی سیاست کا بادشاہ ” کہا جاتا ہے تو وزیراعظم شہباز شریف بھی ایک مفاہمت پسند، صلح جو اور حالات سے سمجھوتہ کرنے والی شخصیت کے طور پر مشہور ہیں یعنی قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں حقیقت پسند اور عملیت پسند ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنے کا گر جانتے ہیں، دونوں نے اس بات کو ماضی میں بھی ثابت کیا ہے۔۔اور فی زمانہ کامیاب سیاستدان اور کامیاب حکمران کی یہی شناخت ہے ۔

ماضی میں میاں نواز شریف کی حکومت کے ساتھ جب بھی مقتدرہ کا کوئی جھگڑا ہوتا تھا تو اس میں ٹربل شوٹر کے طور پر شہباز شریف سامنے آتے تھے۔ اس وقت ان کی معاونت چوہدری نثار علی خان کیا کرتے تھے، جو اب لیگی قیادت سے دور ہو گئے ہیں۔۔حالیہ عرصے میں 16 ماہ کے مشکل ترین دور اقتدار کے لیے بھی شاید انہیں اوصاف کی بنا پر نگاہ انتخابشہباز شریف پر پڑی اور انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے معاملات نبھائے۔۔ یہاں ہم اس سولہ ماہ کی حکومت کے عوام کی صحت پر پڑنے والے مضر اثرات کی بات نہیں کر رہے۔۔

اس وقت سیاسی منظر نامے پر  تین بڑے سیاسی پلیئرز  موجود ہیں ان میں نواز شریف ،آصف زرداری اور عمران خان شامل ہیں۔۔موجودہ حالات میں نواز شریف ایک حد تک پس منظر میں چلے گئے ہیں اور ان کی جگہ شہباز شریف بطور وزیراعظم لائم لائٹ میں آگئے ہیں۔

شہباز شریف کے حوالے سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے قربت کی بنا پر بیک وقت عمران خان کے لیے ناپسندیدہ اور آصف علی زرداری کے لیے پسندیدہ ہیں۔۔یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں شہباز شریف کو نہ صرف نشانے پر رکھا بلکہ انہیں ایک کے بعد ایک مقدمے میں پھنسانے کی کوشش کی کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہونے کی صورت میں شہباز شریف اقتدار میں آ جائیں گے۔ اور پھر ہوا بھی یونہی ۔

دوسری طرف نواز شریف کے مقابلے میں شہباز شریف، آصف زرداری کے پسندیدہ اس لیے ہیں کہ وہ ان کے ہم مزاج ہیں اور جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ دونوں مقتدرہ سے قربت رکھتے ہیں اور یہ خوبی اقتدار کے دوام کی ضمانت سمجھی جاتی ہے ۔

اب اسے حالات کا جبر کہیے یا منصوبہ بندی کا نتیجہ ،کہ ذہنی ہم آہنگی رکھنے والے دونوں رہنما سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت کے طور پر باہم مل گئے ہیں۔چند ہفتے پہلے تک جو نواز شریف یہ سمجھتے تھے کہ سارا میلہ انہیں دولہا بنانے کے لیے سجایا جا رہا ہے اب انہیں ایسا لگتا ہے کہ شاید سارامیلہ ان کا سیاسی کمبل چرانے کے لیے تھا۔۔ظاہر ہے جس تیزی سے نواز شریف کے مقدمات ختم کرائے گئے ،بڑے اہتمام سے انہیں واپس لایا گیا اور ان کے لیے انتخابی میدان سجایا گیا تو انہیں یقین تھا کہ وہ وزیراعظم ہاؤس کے مکین ہوں گے۔۔یہی وجہ ہے کہ "پاکستان کو نواز دو” کا نعرہ بڑے طمطراق سے لگایا گیا مگر قسمت کی ستم ظریفی کہ دو تہائی سے سادہ اکثریت کی خواہش تک کا ڈھلوانی  سفر طے کرنے کے باوجود نواز لیگ کو پارلیمنٹ میں وہ پوزیشن حاصل نہ ہو سکی جسے نواز شریف اپنے شایان شان سمجھتے اور وزیراعظم بنتے۔۔

نواز شریف کا دوسرا ہدف یا مستقبل کے حوالے سے اصل ہدف اپنی صاحبزادی مریم نواز کو وزیراعظم بنوانا تھا مگر اس کے لیے بھی راہ ہموار نہ ہو سکی اور انہیں باور کرایا گیا کہ مریم کی نا تجربہ کاری فی الوقت ان کے وزیراعظم بننے کی راہ میں رکاوٹ ہے چنانچہ بہتر یہ ہوگا کہ پہلے وہ پنجاب میں رہ کر ہاتھ سیدھا کر لیں۔۔
اس تمہید طولانی کا حاصل کلام یا لب لباب یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم ایک پیج پر ہوں گے جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ مضبوط اپوزیشن کے باوجود کمزور حکومت اس طرح خطرات میں گھری نہیں رہے گی جیسا کہ ایک مخلوط حکومت کے بارے میں عمومی تاثر پایا جاتا ہے۔

اگر سیاسی درجہ حرارت قابو میں رہتا ہے تو موجودہ حکومت کے سامنے دوسرا سب سے بڑا چیلنج معیشت کی بحالی کا ہے جس کے لیے امید کی ایک کرن آئی ایم ایف کا یہ بیان ہے کہ ہم شہباز حکومت کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں ۔۔یوں تحریک انصاف کی جانب سے آئی ایم ایف سے تعلق بگاڑنے کی کوشش ناکام ہو گئی ہے۔۔امکان یہی ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام طے ہو گیا تو دوست ممالک بھی مدد کے لیے آگے بڑھیں گے جس کا عندیہ پہلے ہی وہ دے چکے ہیں۔امریکہ برطانیہ سعودی عرب چین سمیت تقریباً تمام اہم ممالک کی جانب سے شہباز شریف کو مبارکباد کے پیغام بھی موصول ہو چکے ہیں۔۔ اس طرح دھاندلی یا مینڈیٹ چرانے کے وہ الزامات فی الوقت دب جائیں گے جو پی ٹی آئی کی جانب سے تواتر سے لگائے جا رہے ہیں۔

 

کیا پی ٹی آئی خاموش ہو جائے گی؟

اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی ٹھنڈے پیٹوں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو مل کر اقتدار کے مزے لوٹنے دے گی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت یعنی عمران خان کو بالواسطہ طور پر مذاکرات میں انگیج کرنے کی پالیسی برقرار رہے گی جس کی تصدیق گزشتہ روز شیر افضل مروت نے بھی کی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ہمارے رابطے ہوئے ہیں مگر ان کی شرائط سخت ہیں جن پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔۔۔اسی طرح چند روز پہلے بیرون ملک بیٹھ کر خوفناک پروپیگنڈا کرنے والے دو یوٹیوبرز سے لا تعلقی کا اعلان بھی اسی جانب ایک قدم دکھائی دیتا ہے۔۔تو ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے تحریک انصاف کے ساتھ گاجر اور چھڑی یعنی کیرٹ اینڈاسٹک والی پالیسی برقرار رکھی جائے گی۔ اگر وہ حکومت کے لیے زیادہ مسائل پیدا نہیں کرتے تو اس کے عوض انہیں ریلیف دیا جائے گا۔۔یہ ریلیف اسیر رہنماؤں کی معقول تعداد میں رہائی کی صورت بھی ہو سکتا ہے اور کے پی حکومت کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع دینے کی صورت میں بھی روبہ عمل آ سکتا ہے۔

دوسری طرف چھڑی کی پالیسی کے تحت محسن نقوی کو مرکز میں بطور وزیر داخلہ لے لیا گیا ہے جو پی ٹی آئی کے لیے سخت پالیسی کی نمائندگی کرتے دکھائی دیں گے ۔۔
سو یہ طے ہے کہ اس حکومت کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ پوری طاقت کے ساتھ کھڑی ہوگی اور اسے پرسکون انداز میں کام کرنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے ہر طرح سے فیسلیٹیٹ کیا جائے گا اور اس کی راہ میں آنے والی رکاوٹیں دور کی جائیں گی۔۔

موجودہ مخلوط سیٹ اپ کو اگرچہ شاخ نازک پر آشیانہ قرار دیا جا رہا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سیٹ اپ میں تمام بڑے پلیئرز کو کچھ نہ کچھ حصہ ملا ہے۔۔مرکز میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ساتھ ہیں تو پنجاب نواز لیگ کے حوالے ہے، سندھ پر پیپلز پارٹی کا راج ہے تو بلوچستان میں یہ دونوں اتحادی مل کر حکومت کریں گے جبکہ کے پی میں پی ٹی آئی کو بھاری اکثریت کے ساتھ بااختیار حکومت کی کمان حاصل ہو گی ۔۔ تو اس طرح اپنی اپنی ڈومین میں سب کو کارکردگی دکھانے کا بھی پورا موقع حاصل ہوگا۔۔جس کے اثرات اور نتائج آنے والے الیکشن میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یعنی اس بات کا امکان موجود ہے کہ اگلے الیکشن میں کامیابی کا دارومدار بڑی حد تک کارکردگی پر ہوگا۔۔

ایک اور خوش آئند بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے نامزد صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی نے کھلے دل سے نو منتخب صدر کو مبارکباد پیش کی ہے اور کہا ہے کہ موجودہ ملکی حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ تمام سیاسی قوتیں اختلافات برقرار رکھتے ہوئے ملک چلانے کے لیے ایک پیج پر آ جائیں۔۔
ان تمام تر خوش کن خیالات اور تصورات کے باوجود فیصل واوڈا کے اس بیان کو بھی نظر انداز نہیں  کیا جا سکتا کہ پیپلز پارٹی نے فی الوقت تو نواز لیگ کو گلے لگالیا ہے مگر وہ آگے چل کر اسے دھکا دے دے گی اور موجودہ اتحاد کی مدت دو سال سے اگے نہیں بڑھے گی۔۔۔جاننے والے جانتے ہیں کہ فیصل واوڈا کن حلقوں کے خود ساختہ ترجمان ہیں، بلکہ ایک لحاظ سے انہوں نے شیخ رشید کی خالی ہونے والی گدی سنبھال لی ہے۔۔تو ان کے بیان میں شہباز حکومت کے لیے پیغام بھی ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ بطور اتحادی اپنے معاملات درست رکھیں بصورت دیگر تخت سے تختہ ہونے میں دیر نہیں لگے گی کیونکہ جہاں ایوان صدر میں زرداری کا براجمان ہونا شہباز حکومت کے تحفظ کی ضمانت ہے تو وہیں سب سے بڑی اتحادی کے طور پر پیپلز پارٹی کے طوطے میں شہباز حکومت کی جان ہوگی۔۔ اور یہ طوطا "چین کے طوطے” کی طرح کوئی بھی کرتب دکھا سکتا ہے۔۔آپ نے بچپن میں چین کے طوطے کی کہانی تو پڑھی ہوگی، جو اپنے ساتھی کو سمجھانے کے لیے اچانک مر جاتا ہے اور جب تاجر اسے اٹھا کر باہر پھینکتا ہے تو وہ اڑ کر درخت پر جا بیٹھتا ہے۔۔۔