امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اپنی بہن ڈاکٹر فوزیہ سے گفتگو
امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اپنی بہن ڈاکٹر فوزیہ سے گفتگو

’’خدا کے واسطے مجھے جہنم سے نکالو‘‘

علی جبران:
’’اپنے گھر والوں کو ہر لمحہ یاد کرتی ہوں۔ کسی چہرے کو نہیں بھلایا‘‘۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے یہ الفاظ دو دہائیوں بعد اپنی بہن سے ہونے والی ملاقات کے موقع پر کہے۔

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بدھ کے روز امریکی جیل میں قید اپنی بڑی بہن ڈاکٹرعافیہ صدیقی سے قریباً ڈھائی گھنٹے ملاقات کی۔ مدتوں بعد ہونے والا یہ مختصر ملاپ، ملاقات کی دردناک شکل تھی۔ جس میں موٹے شیشے کی دیوار حائل تھی۔ خشک موسم تھا۔ مگر ٹوٹ کر برسات ہوئی۔ بیشتر وقت دونوں بہنوں کے مابین آنسوئوں کی زبان میں بات ہوتی رہی۔

جیل میں ہونے والے تشدد کے سبب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے سامنے کے دانت ٹوٹ چکے ہیں اور سماعت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ لہٰذا موٹے شیشے کی دیوار کے اس پار انٹر کام پر اپنی بہن ڈاکٹر فوزیہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بات سمجھنے میں خاصی دشواری پیش آرہی تھی۔ جیل کی خاکی رنگ کی وردی میں ملبوس اور سر پر سفید اسکارف پہنے ڈاکٹر عافیہ بے بسی اور لاچارگی کی تصویر تھیں۔ ان کی حالت زار دیکھ کر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ملاقات کے بعد بھی سارے راستے روتی رہیں۔

گلوبل کوآرڈینیٹر عافیہ موومنٹ کے ترجمان محمد ایوب کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق ملاقات کا پہلا گھنٹہ اس گفتگو پر مبنی تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کو جیل میں روزانہ کن بدسلوکیوں کا سامنا ہے۔ اگرچہ اس کی تفصیلات بیان نہیں کی گئیں۔ تاہم ’’امت‘‘ کو دستیاب دستاویز میں یہ تفصیلات موجود ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ جیل میں زندگی کے کس قدر تلخ تجربات سے گزر رہی ہیں۔

اس حوالے سے یہ خط مئی 2018 میں ہیوسٹن امریکہ میں تعینات پاکستان کی قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کے بعد لکھا تھا۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ جیل میں کس طرح عافیہ صدیقی کو جسمانی اور ذہنی تشدد کا سامنا ہے۔ حتیٰ کہ جنسی ہراسگی بھی روز کا معمول ہے۔

عائشہ فاروقی نے یہ بھی لکھا تھا کہ فروری 2018 میں ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ زیادتی کی کوشش بھی کی گئی تھی اور کمرے میں موجود ان کے زیر استعمال تمام اشیا چھین لی گئی تھیں۔

عائشہ فاروقی کے خط کے مطابق ڈاکٹر عافیہ نے انہیں بتایا تھا کہ ایف ایم سی کارزویل کی جس جیل میں وہ قید ہیں۔ وہاں عصمت دری اور ہم جنس پرستی عام ہے اور یہ کہ ان کی حفاظت صرف اللہ کر رہا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کے کھانے اور ڈرنکس میں فاسفیٹ اور فاسفورک ایسڈ کی شکل میں زہر بھی دیا جارہا ہے تاکہ وہ دھیرے دھیرے موت کی آغوش میں چلی جائیں۔

ڈاکٹر فوزیہ سے ملاقات کے دوران ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنی بیٹی مریم، بیٹے احمد اور والدہ عصمت صدیقی مرحومہ کے بارے میں بھی پوچھتی رہیں۔ انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کی والدہ اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔ خاندانی ذرائع کے بقول ڈاکٹر فوزیہ نے ڈاکٹر عافیہ کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے انہیں والدہ کے انتقال کی خبر سے آگاہ کرنے سے گریز کیا۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ڈاکٹر عافیہ کو مزید صدمے سے دو چار کیا جائے۔ لہٰذا اس خبر کو مخفی رکھا گیا۔ آج (جمعرات کو) ڈاکٹرعافیہ سے دوسری ملاقات کے موقع پر ڈاکٹر عافیہ کو والدہ کے انتقال کے بارے میں شاید آگاہ کر دیا جائے۔

ڈاکٹر فوزیہ اپنے ہمراہ مریم اور احمد دونوں کی تصاویر لے کر گئی تھیں۔ تاکہ ڈاکٹر عافیہ کو ان کے بچوں کے چہرے دکھائے جا سکیں۔ جنہیں انہوں نے پچھلے بیس برس سے نہیں دیکھا ہے۔ یہ تصاویر موبائل فون اور آئی پیڈ میں موجود ہیں۔ تاہم جیل حکام نے اس کی اجازت نہیں دی اور ڈاکٹر فوزیہ کا موبائل فون اور آئی پیڈ باہر ہی جمع کر لیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی2003 میں کراچی سے لاپتہ ہوئی تھیں۔ جس کے چند برس بعد افغانستان میں ان کی موجودگی کا پتہ چلا تھا۔ تب سے یہ پہلا موقع تھا کہ ان کا اپنی فیملی کی کسی رکن سے ملاقات ہوئی۔

اس ملاقات کے بعد اس من گھڑت کہانی نے بھی دم توڑ دیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ اپنے گھر والوں سے بات نہیں کرنا چاہتیں۔ پچھلے کچھ برسوں کے دوران جب بھی ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ نے ان سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی تو انہیں یہ باور کرایا جاتا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ گھر والوں سے بات نہیں کرنا چاہتیں۔ تاہم ڈاکٹر فوزیہ سے ملاقات کے موقع پر ڈاکٹر عافیہ نے واضح طور پر یہ کہا کہ ’’میں اپنی والدہ، بہن اور بچوں کے بارے میں ہر وقت سوچتی رہتی ہوں اور ان سے بات کرنے کو ترستی ہوں‘‘ خدا کے لیے مجھے اس جہنم سے نکالو۔

اس حوالے سے جب گلوبل کوآرڈینیٹر عافیہ موومنٹ پاکستان کے ترجمان محمد ایوب سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر فوزیہ اور ڈاکٹر عافیہ کے مابین دو دہائیوں بعد یہ ملاقات وکیل کلائیو اسٹفورڈ اسمتھ کی کوششوں کے سبب ممکن ہوسکی۔ جنہوں نے رواں برس جنوری میں بھی ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کی تھی۔ بعد ازاں وہ پاکستان آئے اور حکومتی سطح پر اہم لوگوں سے ملاقات کی۔

محمد ایوب کے بقول اس بار یہ بھی خوش آئند بات تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر وزارت داخلہ نے اس ملاقات کو ممکن بنانے میں تعاون کیا۔ اس سے قبل وزارت داخلہ اس معاملے پر ٹال مٹول سے کام لیتی رہی۔ اس ملاقات میں وزیر اعظم شہباز شریف کا بھی رول ہے۔ قریباً ڈیڑھ دو ماہ قبل ڈاکٹر فوزیہ سے ہونے والی ملاقات میں وزیر اعظم شہباز شریف نے یقین دلایا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ سے ان کی ملاقات کے سلسلے میں حکومت تعاون کرے گی۔ محمد ایوب کے بقول ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو اسٹفورڈ اسمتھ کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی حکومت اسی طرح تعاون کرتی رہی تو چند ماہ میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی ممکن ہے۔