برطانیہ میں احتجاج کے نام پر جو تماشہ لگایا جارہا ہے۔ وہ ایک منظم پیڈ ایکسرسائز ہے، فائل فوٹو
برطانیہ میں احتجاج کے نام پر جو تماشہ لگایا جارہا ہے۔ وہ ایک منظم پیڈ ایکسرسائز ہے، فائل فوٹو

’’برطانیہ کی سڑکوں پر سر پھٹیں گے‘‘

علی جبران :
پاگل پن بڑھتا جارہا ہے۔ لندن میں ایک آوارہ لفنگے نے ایک بار پھر قاضی فائز عیسیٰ کو اس وقت گالیاں دیں جب وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ پیدل جارہے تھے۔ اس نے یہ بھی خیال نہیں کیا کہ سابق چیف جسٹس کے ساتھ ایک خاتون ہے۔ کیونکہ ’’بہادر‘‘ بدقماش کو ایک بوڑھے جوڑے سے کسی قسم کے ردعمل کی توقع نہیں تھی۔

اسی طرح نواز شریف بھی نشانے پر ہیں۔ لیکن ان کی اپنی پارٹی کی حکومت بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے اور انتشار پسندوں کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کرنے سے قاصر دکھائی دے رہی ہے۔ حتیٰ کہ پارٹی کے اپنے عہدے دار بھی اس ہومیو پیتھی حکومتی پالیسی پر چیخ اٹھے ہیں اور انہوں نے ملک و بیرون ملک پی ٹی آئی کلٹ سے نمٹنے میں ناکامی کا سبب پولیٹیکل ول کی کمی کو قرار دیا ہے۔ ان میں نون لیگ انٹرنیشنل افیئرز کے چیف کوآرڈینیٹر بیرسٹر امجد ملک بھی شامل ہیں۔

برطانیہ میں پچھلی دو دہائیوں سے پریکٹس کرنے والے امجد ملک ماضی میں اوورسیز کمیشن پاکستان کے اہم عہدے پر رہے ہیں اور حال ہی میں اوورسیز پاکستانیز پنجاب کے وائس چیئرمین مین مقرر ہوئے ہیں۔ اس لیے اوورسیز پاکستانیوں سے ان کے دیرینہ تعلقات رہے ہیں اور انہوں نے برطانیہ سمیت دنیا بھر میں پی ٹی آئی اوور سیز کارکنوں کے کلٹ ازم کو پروان چڑھتے قریب سے دیکھا۔ ان کے بقول پی ٹی آئی واحد پاکستانی سیاسی پارٹی ہے جس نے برطانیہ، امریکہ اور یورپ سے لے کر خلیجی ریاستوں تک، ایک سینڈیکیٹ کی طرح اپنا نیٹ ورک پھیلایا اور پیسوں کے عوض ممبر شپ دی، اور اپنی تجوریاں بھریں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب پاکستان میں زور و شور سے عمران خان کو مسیحا کے طور پر پیش کیا جارہا تھا۔ اس کے نتیجے میں اوورسیز پاکستانیوں کی نوجوان نسل اس کلٹ کے سحر میں آگئی۔

ایک شخص جس کا کر دار اور کارکردگی مشکوک تھی، اسے مسیحا بناکر قوم کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس پراسس میں تمام اخلاقیات کی واٹ لگادی گئی۔ اب اس عمل کو ریورس کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ جو طبقہ عمران خان کو مسیحا سمجھ بیٹھا ہے، اسے درست راستہ دکھانے کے لیے بہت محنت کرنی پڑے گی۔ پاکستان اور لندن کی سڑکوں پر آج جو کچھ ہو رہا ہے، اس کلٹ کی پیداوار ہے۔ جو سرمایہ کاری کی گئی، وہ اب بچے دے رہی ہے۔

لندن میں قاضی فائز عیسیٰ اور نواز شریف سے ہونے والے حالیہ واقعات پر بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا ’’قاضی فائز عیسیٰ اور نواز شریف کی برطانیہ آمد پر ہلڑ بازی اور گالم گلوچ کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اسے روکنے کے لیے حکومت پاکستان کو بروقت اقدامات کرنے چاہئیں۔ یہ معاملہ کافی عرصے سے چل رہا ہے لیکن اس سے نمٹنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ جس جنونی انداز میں قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی پر دھاوا بولا گیا۔ اگر دروازہ کھل جاتا تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ ایسے کسی ممکنہ واقعہ پر بعد میں پچھتانے کے بجائے ابھی سے کچھ کر لینا چاہیے۔ ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔

قاضی فائز عیسیٰ جیسی اہم شخصیت کے لیے پاکستانی ہائی کمیشن کو جس نوعیت کے سیکیورٹی انتظامات کرنے چاہیے تھے، وہ نہیں کئے گئے‘‘۔ بیرسٹر امجد ملک نے انتشار پسندوں کے خلاف برطانیہ میں ممکنہ قانونی کارروائی کے حوالے سے بتایا کہ پرامن احتجاج کرنے کا طریقہ ہوتا ہے کہ پلے کارڈ لے کر سائیڈ میں لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ عمارت کے اندر گھسنا اور مہمانوں سے بدسلوکی قابل مذمت عمل ہے۔ برطانیہ میں پاکستانیوں کی اپنی ساکھ کے لیے بھی یہ زہر قاتل ہے۔ پبلک ایکٹ آرڈر کے تحت ان مظاہرین کے خلاف مقدمہ ہوسکتا ہے۔

متاثرہ فریق کی شکایت پر پولیس کارروائی شروع کرسکتی ہے۔ قاضی فائز اور گاڑی کے ڈرائیور میں سے کوئی بھی کمپلین کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے قاضی فائز تو نہیں کریں گے۔ تاہم ہائی کمیشن کے ڈرائیور کو چاہیے کہ وہ شکایت درج کرائے۔ اسی طرح پاکستانی ہائی کمیشن اگر چاہے تو عدالت سے یہ استثنیٰ لے سکتا ہے کہ امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے والے یہ مظاہرین کمیشن کے کسی فنکشن میں یا آگے پیچھے پھٹک بھی نہ سکیں۔ اس کے لیے برطانوی ہائی کورٹ سے رجوع کرکے اسٹے لیا جاسکتا ہے کہ یہ مظاہرین پُر امن احتجاج کے بجائے نقص امن کا سبب بن رہے ہیں۔

قانونی کارروائی کے راستے بہت سے ہیں۔ لیکن اس کے لیے پولیٹیکل ول چاہیے۔ یعنی آپ یہ سب کچھ کرنے میں سنجیدہ ہیں بھی یا نہیں۔ بدقسمتی سے یہ پولیٹیکل ول دکھائی نہیں دے رہی۔ ہائی کمیشن کی گاڑی میں اس کا ڈرائیور قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ گیا۔ ہائی کمیشن کو سارے انتظام اور پروٹوکول کا پتہ تھا۔ اس کے باوجود قاضی فائز عیسیٰ کی سیکورٹی کے لیے خاطر خواہ انتظامات کیوں نہیں کئے گئے؟

سب سے بڑھ کر یہ کہ قاضی فائز عیسیٰ کے مڈل ٹیمپل جانے کے شیڈول کا علم ہائی کمیشن کو تھا، تو پھر قاضی صاحب کی آمد و رفت سے متعلق معلومات کس نے افشا کیں۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ جس طرح کا ماحول بنادیا گیا ہے، مجھے ڈر ہے کہ آنے والے دنوں میں بات گالم گلوچ سے بڑھ کر مارکٹائی تک پہنچ سکتی ہے۔ کیونکہ دوسری طرف کے لوگ بھی ضبط کا دامن چھوڑ بیٹھے تو لندن کی سڑکوں پر ایک دوسرے کے سر پھٹیں گے اور سوائے ملک کی بدنامی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس صورتحال سے بچنے کے لیے حکومت پاکستان کو مزید وقت ضائع کئے بغیر ایکشن لینا ہوگا۔

جب بیرسٹر امجد ملک سے استفسار کیا گیا کہ آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ انتشار پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے حکومت کے پاس پولٹیکل ول نہیں ہے؟ ان کا کہنا تھا ’’سانحہ 9 مئی میں ملوث کرداروں میں سے کیا ابھی تک کسی کو سزا ہوئی۔ اسی سے پولٹیکل ول ہونے اور نہ ہونے کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ بلوائیوں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے اور ان کی کارروائیوں کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ پی ٹی آئی سے نمٹنے کے معاملے میں حکومت میں پولیٹیکل ول کی کمی ہے۔ اس کی وجہ آپس کی تقسیم ہے۔ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ایکشن ہونا چاہیے کچھ لوگ نہیں چاہتے اور وہ تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ ورنہ 9 مئی کے کردار بچ نہیں سکتے تھے۔ پانچ چھ ماہ میں ہی ٹرائل پایہ تکمیل تک پہنچ چکے ہوتے۔

اگر صرف پانچ پانچ ہزار روپے جرمانے کی سزا بھی دے دی جاتی تو یہ کردار اسمبلیوں کے رکن بننے سے نااہل ہوجاتے۔ اگر اتنا بھی ممکن نہیں تھا تو جی ایچ کیو، کور کمانڈر اور شہدا کی یادگاروں پر حملہ کرنے اور کرانے والوں کو مجسٹریٹ کے ذریعے ہی محض معطل سزا اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کرکے اسمبلیوں سے باہر رکھا جاسکتا تھا۔ اس کے برعکس اب کوئی وزیر اعلیٰ ہے اور کوئی وزیر ہے۔ عمران خان نے اپوزیشن کو اس جگہ رکھا تھا جہاں وہ چاہتا تھا۔ آپ (حکومت) اسے اس جگہ نہیں رکھ پارہے۔ بطور وزیراعظم عمران نے چار برس اسمبلی میں سلام تک نہیں لیا۔ اس کی اسمبلی پھر بھی چلتی رہی۔ آپ کو کیا خوف ہے؟

قاضی فائز برطانیہ تو چند روز پہلے آئے ہیں۔ ان کے خلاف پاکستان میں ایک ماہ تک جو غلیظ ترین کمپین چلتی رہی۔ ایسا میں نے اپنے پورے کیریئر میں نہیں دیکھا۔ لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ میں اس کی وجہ پولیٹیکل ول کی کمی، بدانتظامی اور غفلت سمجھتا ہوں‘‘۔ اس سوال پر کہ قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹر فیصل پر بھی خاصی تنقید ہو رہی ہے اور ان کا تعلق پی ٹی آئی سے جوڑا جارہا ہے۔ اس میں کہاں تک صداقت ہے؟

بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا ’’اس بحث میں پڑے بغیر کہ ڈاکٹر فیصل کے ہمدرد ہیں یا نہیں۔ میں سمجھتا ہوں، حکومت کو چاہیے کہ پاکستانی ہائی کمیشن میں سرکاری افسر کے بجائے کسی تگڑے سیاسی بندے یا ملیحہ لودھی جیسی شخصیت کو ہائی کمشنر تعینات کرے۔ جیسا کہ پیپلز پارٹی نے برطانیہ میں واجد شمس الحسن اور امریکہ میں حسین حقانی کو مقرر کیا تھا۔ کیوں کہ ایک بیوروکریٹ سیاسی معاملات کو درست طریقے سے ہینڈل نہیں کرسکتا۔ اور نہ حکومتی اہم شخصیات کی پروٹیکشن سے اس کی کوئی جذباتی وابستگی ہوتی ہے۔ پارٹی لیڈر کو گالی پڑتی ہے تو پڑتی رہے۔ اس سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اس وقت ایک منقسم سیاسی معاشرہ ہے۔ جو اس بات کا متقاضی ہے کہ سفارتی عملہ بھی پارٹی وابستگی رکھنے والا ہو۔

صرف برطانیہ میں پی ٹی آئی کے چھبیس ہزار پیڈ ممبرز ہیں۔ جنہیں سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے اور ان کی پگڑیاں اچھالنے کے لیے پوری طرح استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے مقابلے میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت تمام دیگر پارٹیوں کے کارکنان کی مجموعی تعداد بمشکل دس ہزار ہے۔ اوپر سے ہائی کمیشن میں بھی کمزور لوگ بیٹھے ہیں‘‘۔ بیرسٹر امجد ملک کے بقول ان کی کوشش ہے کہ وہ آج پیر کو نواز شریف سے ملاقات کریں۔ وہ ان کے سامنے تجویز رکھیں گے کہ لندن سمیت دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں متحرک سیاسی سفیر اور ہائی کمشنرز تعینات کیے جائیں یا کم ازکم ان کے ڈپٹی تیز و طرار ہوں۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ حکومت کی کمزوری ہے کہ وہ ایسا نہیں کرسکی ہے۔

سفیروں کا کام ریفری بن کر میچ کرانا نہیں۔ بلکہ حکومت وقت کی پروٹیکشن اور اس کو پالیسیوں کو پروموٹ کرنا ہے۔ اگر پاکستانی ہائی کمیشن لندن اپنے ایک ہائی پروفائل مہمان کو پروٹیکشن دینے سے قاصر تھا تو دوسری سیاسی پارٹیوں کو آگاہ کر دیتا۔ وہ قاضی فائز عیسیٰ کی حفاظت کے لیے اپنے کارکنان مڈل ٹیمپل کے باہر کھڑے کردیتے یا ان پارٹیوں کے وکلا وہاں چلے جاتے۔ یا ہائی کمیشن کو کم از کم پرائیویٹ سیکورٹی کمپنی کی خدمات حاصل کرلینی چاہیے تھیں۔ لیکن ہائی کمیشن نے سراسر غیر ذمہ داری اور غفلت کا مظاہرہ کیا۔ یہ غفلت دانستہ تھی یا نادانستہ، اس کی تحقیقات حکومت کو کرنی چاہیے۔

بیرسٹر امجد ملک کے مطابق برطانیہ میں احتجاج کے نام پر جو تماشہ لگایا جارہا ہے۔ وہ ایک منظم پیڈ ایکسرسائز ہے۔ دور دراز کے شہروں سے لوگ لائے جاتے ہیں۔ سب کچھ ایک منظم طریقے سے کیا جارہا ہے جس کی باقاعدہ فنڈنگ ہورہی ہے۔

اس پیڈ ایکسرسائز کی جانچ کرنا حکومت کا کام ہے کہ وہ پتہ چلائے کہ یہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے۔ دیہاڑی دار مظاہرین کو کون لے کر آرہا ہے۔ ایک دو افسروں کی ڈیوٹی لگائی جائے۔ وہ بتادیں گے کہ کہاں سے بسیں آئیں۔ دوسرے شہروں سے آنے والوں کی ٹکٹوں کا انتظام کس نے کیا۔ کس ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر پلاننگ کی گئی۔ لندن کی سڑکوں پر سو دو سو بندہ اکٹھا کرنے کے لیے مہینوں کی ایکسرسائز چاہیے- اتنا آسان نہیں۔ مانچسٹر سے لندن کی ٹکٹ ڈھائی سو پونڈ کی ہے۔ بڑا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ کوئی تو فنڈنگ کر رہا ہے۔