فائل فوٹو
فائل فوٹو

کراچی سینٹرل جیل میں 119 قیدی پھانسی کے منتظر

سید حسن شاہ :

کراچی سینٹرل جیل میں ہائی پروفائل سمیت 119 قیدی سزائے موت کے منتظر ہیں۔ یورپی یونین کے دباؤ پر پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہوپارہا۔ سینٹرل جیل میں مئی 2017ء کو قتل کے جرم میں مختار علی نامی قیدی کو پھانسی دی گئی تھی۔ سزائے موت کے منتظر قیدی اپنے جرم پر پچھتاوے اور اہلخانہ کی یاد میں آنسو بہاکر زندگی کے باقی دن گزار رہے ہیں۔ فروری 2016ء میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل میں ممتاز قادری کو بھی راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں پھانسی دی جاچکی ہے۔

پاکستان میں 2004ء سے اب تک 5 ہزار 89 سے زائد ملزمان کو مختلف عدالتوں کی جانب سے سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔ جن میں سے بیشتر قیدیوں کی سزائے موت پر عملدرآمد بھی کیا جاچکا ہے۔ کراچی کی بات کریں تو سینٹرل جیل میں اس وقت سزائے موت کے 119 قیدی موجود ہیں۔ جبکہ سزا یافتہ قیدیوں کی تعداد ایک ہزار 6 ہے۔ یورپی یونین کے دباؤ پر پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔ جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں قیدی سزائے موت کے منتظر اور اپنے جرم پر پچھتا رہے ہیں۔ جبکہ ان کی زندگی اپنے پیاروں کی یاد اور قرآن پاک کی تلاوت و عبادات میں گزر رہی ہے۔

کراچی کی سینٹرل جیل میں آخری بار پھانسی مختار علی ولد ذوالفقار علی نامی قیدی کو دی گئی تھی۔ اسے ماتحت عدالت نے قتل کے جرم میں 2 دسمبر 2014ء کو سزائے موت سنائی اور سزا پر عملدرآمد 25 مئی 2017ء کو کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک کسی قیدی کو پھانسی نہیں دی گئی۔ فروری 2016ء میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل میں ممتاز قادری کو بھی راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں پھانسی دی جاچکی ہے۔

سینٹرل جیل کراچی میں موجود سزائے موت پانے والوں میں ہائی پروفائل اور دہشت گردی کے مقدمات میں نامزد مجرمان بھی شامل ہیں۔ ان میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کے ملزمان ایم کیو ایم کے سابق سیکٹر انچارج عبدالرحمان بھولا اور زبیر چریا شامل ہیں۔ جنہیں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ستمبر 2020ء کو سزائے موت سنائی۔ ان پر 11 ستمبر 2012 ء کو علی انٹرپرائزز بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آگ لگانے کا الزام ہے۔ فیکٹری میں آتشزنی سے 259 افراد جل کر جاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ معاملے کی تحقیقات ہوئی تو سامنے آیا کہ فیکٹری مالکان کی جانب سے بھتہ نہ دینے پر متحدہ کراچی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کے احکامات پر فیکٹری کو آگ لگائی گئی تھی۔

سزائے موت پانے والوں میں پیپلز پارٹی کے کارکن اعجاز عرف مشکا کے قتل کیس میں ملوث متحدہ کے کارکن شکیل عرف بنارسی بھی شامل ہے۔ اس پر الزام ہے کہ مقتول اعجاز عرف مشکا 20 دسمبر 2012ء کو اورنگی ٹاؤن میں اپنے گھر کے باہر بیٹھا تھا۔ دو موٹر سائیکل سوار ملزمان نے مقتول پر فائرنگ کردی۔ جس سے مقتول اعجاز جاں بحق ہوگیا۔ ملزم شکیل عرف بنارسی کو 2015ء میں نائن زیرو سے گرفتار کیا گیا۔ ملزم شکیل عرف بنارسی نے دوران تفتیش دیگر ملزمان کے قتل میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا۔ ملزمان کیخلاف پاکستان بازار تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا اور انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے سزا سنائی تھی۔

اہلیہ، سوتیلی بیٹی اور بیٹے سمیت 4 افراد کے قتل کیس میں ملوث ملزم محمد منان بھی سینٹرل جیل میں سزائے موت کا منتظر ہے۔ اس پر الزام ہے کہ 12 مئی 2017ء کو ذاتی رنجش پر محمد منان نے اپنی اہلیہ رابیعہ، بیٹے ریحان، سوتیلی بیٹی راحیلہ اور سالے نور محمد کو قتل کیا۔ محمد منان نے اپنے دو بیٹوں آصف اور یوسف کے ساتھ مل کر لوہے کی راڈ سے تشدد کا نشانہ بناکر قتل کیا۔ ملزمان کے خلاف مقتولہ رابعہ کے والد صابر احمد کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا۔ ملزمان کے خلاف تھانہ سپر مارکیٹ میں قتل اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہے۔ ملزم کو بھی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سزا سنائی تھی۔

اس کے علاوہ کورنگی کے علاقے میں حنیف نہاری پر کھانا کھانے والے چار پولیس اہلکاروں کے قتل کیس میں ملوث ملزم آصف کٹو بھی سزائے موت کے قیدیوں میں شامل ہے۔ پراسیکیوشن کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ ملزم نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 12 جولائی 2015ء کو حنیف نہاری پر کھانا کھانے والے چار پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی۔ کیس میں مفرور دو ملزمان بلال اور عبدالسلام پولیس مقابلے میں مارے جا چکے ہیں۔ ملزم آصف کٹو کو دو عینی شاہدین نے شناخت کیا تھا۔ ملزم سے برآمد اسلحہ اور جائے وقوعہ سے ملنے والی گولیاں کے خول میچ ہوئے تھے۔ ملزم پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کے بعد ان کا سرکاری اسلحہ بھی ساتھ لے گیا تھا۔ ملزمان کے خلاف زمان ٹاؤن تھانے میں مقدمہ درج تھا۔

اسی طرح مختلف عدالتوں سے بھی کئی ملزمان کو سزائے موت سنائی جاچکی۔ جن میں الیکٹرک کرنٹ لگاکر شہری شاہ زمان کو قتل کرنے کے کیس میں ملوث ملزم غلام نبی عرف دیدار بھی شامل ہے۔ ملزم نے نومبر 2018ء کو خاتون اسما کے ساتھ مل کر اس کے شوہر شاہ زمان کو قتل کیا تھا۔ ملزمان کی جانب سے قتل کو خود کشی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ مقتول کے رشتہ داروں نے جسم پر نشانات دیکھے۔ جس کے بعد مقدمہ درج ہوا۔ جبکہ ملزمہ اسما نے اعتراف جرم بھی کیا تھا۔ ملزمان کے خلاف تھانہ پیر آباد میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایس بی سی اے لیبر یونین کے جنرل سیکریٹری کے قتل کیس ملزم بابر سراج کو بھی سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔ ملزم پر الزام تھا کہ فنکشنل لیبر یونین کے پوسٹر کو گندا کرنے پر ملزم بابر سراج اور عارف موٹا سے مقتول کی بحث ہوئی۔ ملزم بابر نے فائرنگ کرکے سید اشرف علی کو قتل کیا تھا۔ ٹرائل کورٹ نے 2021ء میں ملزم بابر کو سزائے موت سنائی۔ ملزم نے سزا کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی۔

ہائیکورٹ نے 2022ء میں مقدمہ دوبارہ چلانے کیلئے سیشن عدالت بھیجا تھا۔ سیشن عدالت نے دوبارہ جرم ثابت ہونے پر ملزم کو سزائے موت سنائی تھی۔ واقعہ کا مقدمہ 2019ء میں تھانہ نیو ٹائون میں درج کیا گیا تھا۔ ڈکیتی مزاحمت پر شہری کو قتل کرنے اور اقدام قتل کے کیس میں اسٹریٹ کرمنل شکور خان کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔ 25 ستمبر 2018ء کو شہری ساجد اپنے دوستوں کے ساتھ اتحاد ٹاؤن میں واقع اپنے گھر کے باہر بیٹھا تھا۔ موٹر سائیکل پر سوار دو ملزمان آئے اور انہوں نے ساجد و دیگر سے موبائل فون مانگے۔ ساجد کے منع کرنے پر ملزمان نے فائرنگ کردی۔ جس سے ساجد جاں بحق ہوگیا۔ مقتول ساجد کے بھائی حبیب کی مدعیت میں اتحاد ٹاؤن تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا۔

بیوی کو قتل اور سالے کو زخمی کرنے کے الزام میں ملزم بلند بخت کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔ اس پر الزام تھا کہ دسمبر 2021ء کو بلند بخت اپنے بھائی کے ہمراہ اپنے سسرال پہنچا۔ میاں بیوی کے درمیان بچوں کی حوالگی کا مقدمہ زیر سماعت تھا۔ بلند بخت نے سسرال پہنچ کر فائرنگ کردی۔ جس سے بیوی جاں بحق اور اس کا بھائی زخمی ہوگیا۔ واپسی پر ملزم کے بھائی یوسف نے مقتولہ کے دوسرے بھائی کو قتل کردیا۔ واقعہ کا مقدمہ تھانہ جمشید کوارٹر میں درج کیا گیا۔ ٹریکٹر کے ٹائروں میں منشیات چھپا کر اسمگلنگ کے مقدمے میں ملزم قمر محمود کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔

اس پر الزام تھا کہ اے این ایف حکام نے پاکستان انٹرنیشنل کارگو ٹرمینل پر کارروائی کی تھی۔ کارروائی کے دوران کنٹینر سے ٹریکٹر کے ٹائروں میں چھپائی گئی 20 کلو ہیروئن برآمد کی گئی۔ اے این ایف نے ملزم قمر محمود، عتیق رحمان اور دیگر شریک ملزمان کے خلاف 2016ء میں مقدمہ درج کیا تھا۔ ڈکیتی کے دوران شہری کو قتل کرنے سے متعلق کیس میں ملوث چار رکنی ڈکیت گینگ عمیر، شاہ رخ، ذیشان اور عدنان شمسی کو بھی سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔

ملزمان پر الزام تھا کہ 20 اگست 2018ء کو مدعی محمد عباس اور اس کے بھائی سرجانی ٹاؤن میں واقع دکان پر موجود تھے۔ دوپہر کے وقت تین موٹر سائیکلوں پر 6 ملزمان آئے اور لوٹ مار شروع کردی۔ اسی دوران مدعی مقدمہ کے والد حاجی بشیر احمد وہاں پہنچے اور شور کیا تو ملزمان نے فائرنگ کردی۔ جس سے حاجی اقبال ہلاک، جبکہ عابد اور حاجی خان زخمی ہوئے۔ ایک ملزم عمیر کو موقع پر شہریوں نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا۔