عمران خان :
کسٹمز کے جدید ترین سسٹم کو نقب زنی سے محفوظ رکھنے پر کام شروع کردیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ کسٹمز کے ’’فیس لیس کلیئرنس سسٹم‘‘ میں بھی اسمگلراور ٹیکس چور نقب لگانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ مذکورہ معاملات کی حساس اداروں کی جانب سے مسلسل نگرانی کے بعد وفاقی حکومت کلو رپورٹس ارسال کی گئی ہیں، جس کے بعد مذکورہ سسٹم کا تفصیلی آڈٹ شروع کردیا گیا ہے۔ تاکہ اس نئے سسٹم کو فول پروف بنایا جاسکے۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق کے مطابق صرف گزشتہ چند روز میں مس ڈکلریشن کے ذریعے اربوں روپے کے ٹیکس فراڈ کی وارداتیں انجام دیئے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔جن میں اربوں روپے مالیت کے امریکی بادام، لوبیا کی دال کی آڑ میں نکالنے والی اے بی میمن اینڈ سنز، فیلکن لاجسٹک، میسرز ای آر برادرز سمیت دیگر کمپنیوں اور آٹو پارٹس کی آڑ میں 33 کروڑ سے زائد کے موبائل فون اور ویپ لیکوئیڈ کلیئر کروانے والوں کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے۔ جبکہ اس سامان کو کلیئر کرنے میں معاونت کرنے والے کسٹمز اپریزمنٹ سائوتھ کے افسران کے حوالے سے بھی انکوائری شروع کردی گئی ہے۔
کسٹمز ذرائع کے بقول ملکی معیشت کو مضبوط بنانے ریونیو میں سے لیکیجز کو ختم کرکے محصولات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے کے لئے دو ماہ قبل کسٹمزکلیئرنس کے نظام کو شفاف اور تیزرفتار بنانے کے لئے وزیر اعظم کی ہدایت پر ایف بی آر نیکسٹمز میں فیس لیس سسٹم دو ماہ قبل متعارف کرایا گیا تھا۔ جسکا وزیر اعظم پاکستان نے کراچی آکر اس کا افتتاح کیا تھا۔ اس سسٹم کے تحت کسٹمز اپریزر افسران کا درآمد کندگان اور ایجنٹ کا براہ راست رابطہ ختم کر دیا گیا جس سے کرپٹ افسران اور ان کے معاون کسٹمز ایجنٹس پریشان تھے۔
کسٹمز ذرائع کے مطابق فیس لیس سسٹم میں تعینات ہونے والے اپریزر نے ایک جانب اچھی شہرت رکھنے والی کمپنیوں کی کنسائمنٹ کلیئرنس میں دانستہ تاخیر کرنا شروع کردی۔ دوسری جانب انھوں نے کچھ کسٹمز ایجنٹس اور پرائیویٹ افراد (لپو) کے ذریعے چند اہم درآمدات کے الگ الگ واٹس ایپ گروپ بنائے جوکہ درآمد کندگان سے رابطہ کرتے اور معاملات طے کرنے لگے تھے۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ چیف کلیکٹر کو ملنے والی شکایات کے بعد ایک اپریزنگ افسر کے ڈرائیور اور دیگر کے ٹیلی فونز کی فارنزک چیکنگ کی گئی جس سے کئی و اٹس ایپ گروپ بنائے جانے کا انکشاف ہوا۔ تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان گروپس کے ذریعے اسکریپ، پرانے کپڑے، کراکری اور آٹو پارٹس وغیرہ کے شعبے میں معاملات طے کر کے اسپیڈ منی وصول کی جار رہی تھی۔
کسٹمز ذرائع کے مطابق نیا سسٹم متعارف کروانے کے بعد حکومت نے اسے شفاف انداز میں چلانے کے لئے وفاقی حساس ادارے سمیت یگر حساس اداروں کی ٹیموں کو اس کی مانیٹرنگ پر متعین کیا، تاکہ اگر پرانی مافیا دوبارہ سے اپنی وارداتوں کے لئے اس سسٹم کو بائے پاس کرے تو اس کی اطلاعات حکومت کو ملتی رہیں۔ ایسی ہی رپورٹوں میں حکومت کو معلوم ہوا کہ کسٹمز کے کرپٹ افسران کے فرنٹ مینوں کا نیٹ ورک متحرک ہوا اور انہوں نے پرال (پاکستان ریونیو آٹو میشن پرائیویٹ لمیٹڈ) کے افسران کے ذریعے وہ معلومات حاصل کرنی شروع کردیں کہ آج کس سامان کی گڈز ڈکلریشن کو چھان بین کے لئے خودکار سسٹم نے کن افسران کو منتخب کیا ہے۔
یہ معلومات ایک فہرست کی صورت میں بھاری رشوت کے عوض اپریزمنٹ کلکٹریٹس کے اعلیٰ حکام کے بیٹر محمد اسماعیل کو فراہم کی جانے لگی۔ جس نے مذکورہ کلکٹریٹس کے افسران کے نام پر کلیئرنگ ایجنٹوں اور کمپنی مالکان سے سامان کی کلیئرنس آسانی سے یقینی بنانے کے عوض اسپیڈ منی وصول کرنے کا کام شروع کردیا اور اس کے نتیجے میں انہیں بھی ایک راستہ مل گیا۔ ان وارداتوں کے لئے انتہائی بے باکی سے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا گیا جس میں مذکورہ معلومات کے تبادلے اور رابطوں کے لئے تفصیلات دی جاتیں۔ جبکہ ریکوری یعنی اسپیڈ منی کی وصولی کا کام ایاز علی اور نعمان کے ذریعے کیا جانے لگا۔
مذکورہ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد اس کے خلاف کسٹمز پریونٹو کے تحت کارروائی کروائی گئی جس میں مجموعی طور پر 50 سے زائد کلیئرنگ ایجنٹوں کو شامل تفتیش کرلیا گیا۔ جبکہ 45 کلیئرنگ ایجنٹوں کے لائسنس معطل کردئے گئے۔ اسی طرح 6 کلیئرنگ ایجنٹوں سمیت 10 افراد کو حراست میں لے کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ جبکہ مذکورہ واٹس ایپ گروپ کے ذریعے ہونے والی غیر قانونی سرگرمیوں کے شواہد جمع کئے جا رہے ہیں جس کے لئے درجنوں کلیئرنگ ایجنٹوں اور تاجروں کو بھی کسٹم کے افسران اور اہلکاروں کے ساتھ شامل تفتیش کرلیا گیا۔ ان تمام افراد کے موبائل فونز کی چھان بین کے لئے ان کے درمیان ہونے والے مالی لین دین کا بینکنگ ریکارڈ بھی لیا جا رہا ہے جس کے لئے ان کے بینک کھاتے چیک کئے جا رہے ہیں۔
ذرائع کے بقول ابھی اس اسکینڈل پر تفتیش جاری ہی تھی کہ فیس لیس کلیئرنس سسٹم میں نقب زنی کی دو مزید بڑی وارداتیں سامنے آگئیں۔ جن میں سے پہلی کارروائی میں کسٹمز انفورسمنٹ کراچی نے ایک خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے لوبیا کے نام پر امریکن بادام کی بڑے پیمانے پر اسمگلنگ کا پردہ چاک کیا۔ حکام کے مطابق، اس غیر قانونی سرگرمی کے ذریعے قومی خزانے کو 3 ارب 60 کروڑ روپے سے زائد کی ڈیوٹی اور ٹیکسوں کا نقصان پہنچایا گیا۔
کسٹمز کے مطابق اس ضمن میں ایک اطلاع ملی تھی کہ میسرز ای آر برادرز نامی درآمد کنندہ جبل علی دبئی سے لوبیا کے نام پر بڑی مقدار میں امریکن بادام اسمگل کر کے اپنے گوداموں میں منتقل کر رہا ہے۔ اس اطلاع پرفوری طور پر تمام درآمد شدہ لوبیا کے کنٹینرز اپنی تحویل میں لینے کی ہدایات جاری کیں گئیں۔ جس کے بعد اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن کی ٹیم نے کراچی انٹر نیشنل کنٹینر ٹرمنل (KICT) سے کلیئر ہونے والے دو کنٹینرز کو رحمان گودام، فیلکن لاجسٹک کمپلیکس، حب ریور روڈ سے برآمد کیا۔ اسی طرح کراچی کے علاقے ہارون آباد سائٹ ایریا میں موجود ایک اور گودام سے مزید دو کنٹینرز تحویل میں لئے گئے۔ جبکہ دو مزید کنٹینرز جو کلیئر ہوچکے تھے۔ انہیں بھی KICT (کراچی انٹر نیشنل کنٹینرز ٹرمنل) کے خارجی دروازے پر پر روک دیا گیا۔
ان کنٹینرز کی تلاشی کے دوران 155 ٹن چھلے ہوئے امریکن بادام، 50 ٹن لوبیا، 15 ٹن مختلف سبزیوں کے بیج اور 200 کارٹن امریکی ساخت سلنگ فلم برآمد کی گئی۔ تحقیقات میں معلوم ہوا کہ درآمد کنندہ نے دھوکہ دہی سے لوبیا کی آڑ میں بادام اسمگل کرنے کی کوشش کی۔ جس سے حکومت کو 45 کروڑ روپے کے ریونیو کا نقصان ہوا۔ تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ میسرز ای آر برادرز نے فروری 2025ء کے دوران گرین چینل کے ذریعے 84 کنٹینرز کلیئر کروائے۔ اس طریقہ کار سے قومی خزانے کو 3 ارب 60 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا۔ حکام نے فوری کارروائی کرتے ہوئے 1439 ملین روپے مالیت کی تمام اسمگل شدہ اشیا ضبط کر لی ہیں اور مقدمہ درج کر لیا گیا۔مزید تفتیش جاری ہے۔
دوسری واردات کے حوالے سے کسٹمز حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز کسٹمز انفورسمنٹ اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن کی ویسٹ وہارف کے قریب کارروائی، تیس کروڑ چوبیس لاکھ مالیت کے 11 مختلف برانڈز کے 10 ہزار 8 موبائل فون ضبط کرلیے۔ تفصیلات کے مطابق کسٹم حکام کی جانب سے کارروائی کیدوران کار کولنٹ کی آڑ میں اسمگل کروڑوں روپے مالیت کے موبائل فون اور لکویڈ تمباکو فلیور قبضے میں کرلیے گئے۔ اے بی میمن سنز نامی کمپنی نے کارکولنٹ کی آڑ میں ممنوعہ سامان اسمگل کیا تھا۔
کسٹمزکے مطابق کارکولنٹ کے کانوں میں موبائل فون اور لکویڈ تمباکو فلیور موجود تھے، اسمگل شدہ سامان ٹرک کے ذریعے امپورٹر کے گودام میں منتقل کردیا گیا ہے۔ کسٹم حکام کے مطابق کارروائی کے دوران 30 کروڑ 24 لاکھ مالیت کے 11 مختلف برانڈز کے 10 ہزار 8 موبائل فون ضبط کیے گئے ہیں۔ کارروائی میں تین کروڑ روپے مالیت کی 15 ہزار لکویڈ تمباکو فلیور برآمد ہوئے۔ برآمد شدہ موبائل فونز اور تمباکو فلیور کو کسٹمز ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے تحت ضبط کیا، ترجمان کسٹم کا کہنا ہے کہ کسٹمز ایکٹ کے تحت امپورٹر اے بی میمن سنز کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔