عمران خان:
روشن مستقبل کی چاہ میں دیارِ غیر جانے والے سیکڑوں پاکستانی نوجوان تاحال جرائم پیشہ مافیاز کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ دوسری جانب ایف آئی اے پاکستانیوں کو کمبوڈیا، میانمار اور لائوس کے عقوبت خانوں میں پہنچانے والے انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائی میں ناکام ہے۔ اب بھی سینکڑوں مغوی پاکستانی ان ممالک کے جنگلوں میں فراڈ کرنے والے کال سینٹرز میں قیدیوں کی طرح بغیر تنخواہوں کے اذیت ناک بیگار کر رہے ہیں۔ پاکستان سے جعلی ایجنٹوں کے جھانسے میں آکر جانے والے شہریوں کو مذکورہ ممالک کے حکام بازیاب کروا کر واپس بھجوا رہے ہیں۔ جبکہ درجنوں پاکستانیوں کو بیرون ملک موجود پاکستانی کمیونٹی کے افراد نے تاوان دے کر اغواکاروں کے چنگل سے رہائی دلوائی۔ ’’امت‘‘ میں اس اسکینڈل کے حوالے سے 30 اگست 2024ء کو شائع ہونے والی خصوصی رپورٹ کے بعد اب مزید حقائق سامنے آگئے ہیں۔
دستیاب معلومات کے مطابق 2024ء اور 2025ء کے دوران اب تک میانمار، کمبوڈیا اور لائوس وغیرہ سے بازیاب کروائے گئے 80 کے قریب پاکستانیوں کو تھائی لینڈ منتقل کرنے کے بعد پاکستان واپس بھجوایا جاچکا ہے۔ اسی طرح سے کمبوڈین حکام کی کارروائی میں بازیاب ہونے والے 20 افراد کو بھی گزشتہ ہفتے پاکستان ڈیپورٹ کیا گیا ہے۔ ان افراد کے واپس آنے کے بعد ان سے کی گئی پوچھ گچھ کے بعد ایف آئی اے میں متعدد انکوائریاں اور مقدمات درج کئے گئے ہیں، جن میں مختلف انسانی اسمگلر اور ان کے ایجنٹ نامزد کئے گئے ہیں۔ تاہم اب تک پاکستان میں یہ نیٹ ورک چل رہے ہیں اور ان کے مرکزی ملزمان کو گرفتار کرنے میں ایف آئی اے افسران ناکام رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مذکورہ ایجنٹوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر کھلے عام ایسے اشتہارات چلائے جا رہے ہیں، جن کے ذریعے لاکھوں روپے لے کر پاکستانی شہریوں کو تھائی لینڈ میں کمپیوٹرز کے کام سے متعلق اچھی ملازمت کا جھانسا د ے کر انہیں وزٹ ویزوں پر تھائی لینڈ بھجوایا گیا، جہاں سے انہیں تھائی لینڈ کے پڑوسی ممالک میانمار اور کمبوڈیا کے سرحدی علاقوں میں اسمگل کرکے سائبر اسکیمز کال سینٹرز میں منتقل کردیا گیا۔ جہاں پر موجود عالمی سائبر کرمنلز نیٹ کے کارندے مہینوں ان پاکستانی افراد کو قید میں رکھ کر جبری طور پر کام کرواتے رہے۔ ان نوجوانوں کو دنیا بھر میں آن لائن مالیاتی جرائم اور بلیک میلنگ کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔
’’امت‘‘ کو تھائی لینڈ میں موجود پاکستانیز تھائی لینڈ ایسوسی ایشن کے رہنما حسن عدیل نے بتایا کہ ایسے ہی نیٹ ورک کے ذریعے پھنسنے والے 12 پاکستانی نوجوان جن میں ایک خاتون بھی شامل تھی، انہیں تھائی لینڈ میں موجود پاکستانی سفیر اور ایسوسی ایشن کی کوششوں سے تھائی حکام نے ایک آپریشن میں میانمار کے سرحدی علاقے کے کال سینٹر سے بازیاب کیا۔ مذکورہ افراد کو ایسوسی ایشن کی جانب سے اپنی مدد آپ کے تحت بینکاک کے ہوٹل میں ٹھہرایا گیا جہاں کئی روز تک ان کے کھانے پینے کا بھی بندوبست کیا گیا۔ بعد ازاں ان کے ٹکٹ وغیرہ کے انتطام میں بھی معاونت کی گئی۔
حسن عدیل کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ افراد اپنی سادہ لوحی یا لالچ کی وجہ سے انسانی اسمگلروں کے جھانسے میں آئے، جنہیں تھائی لینڈ میں اچھی نوکری کے لئے بلایا گیا۔ بعد ازاں ان کو سرحدی علاقے مے سوٹھ سے بارڈر کراس کرکے میانمار منتقل کردیا گیا۔ جہاں اغوا کار ان سے دوسروں لوگوں کو فراڈ کرنے کا آرڈر دیتے تھے۔ آرڈر نہ ماننے والوں پر شدید ذہنی و جسمانی و نفسیاتی تشدد کیا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ یہ باتیں تمام پاکستانیوں تک پہنچائی جائیں۔ تاکہ اصل حقیقت سب کے سامنے آئے کہ تھائی لینڈ، میانمار، کمبوڈیا یا لائوس میں کال سینٹرز یا کمپیوٹر آپریٹرز کی جاب ایک دھوکہ ہے۔ ان چکروں میں پڑ کر نوجوانوں کی زندگیاں شدید پریشانی اور کرب میں پھنس جاتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں اگر قانون کی حکمرانی ہے تو پاکستان میں بیٹھے اس فراڈ کو فروغ دینے والے پاکستانیوں اور ان کے سہولت کاروں کو فوری طور نشانہ عبرت بنانا چاہیے۔
اطلاعات کے مطابق میانمار اور کمبوڈیا کے ان فراڈ کال سینٹرز کے لئے کمپنیوٹر ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مختلف قسم کے سافٹ ویئرز چلانے کی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد کو یہاں لانے اور ان سے کام کروانے کے لئے زیادہ تر جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ممالک کو ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان میں پاکستان، بھارت، افغانستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، چین اور خود تھائی لینڈ کے شہری شامل ہیں۔
رواں برس فروری کے آخر میں تھائی لینڈ آرمی نے کمبوڈین بارڈر فورس اور پولیس کے ساتھ مل کر دونوں ممالک کے سرحدی علاقے پوئی پٹ میں قائم ایک عمارت پر آپریشن کیا۔ اس مشترکہ کارروائی میں مختلف ممالک کے 215 یرغمالی بازیاب کروائے گئے۔ یہ اب تک ایک عمارت میں چلنے والے ’’ڈبہ کال سینٹرز‘‘ سے ملنے والے قیدیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ مذکورہ یرغمالیوں میں 50 پاکستانی، 48 بھارتیوں کے علاوہ 109 تھائی باشندے بھی شامل تھے۔ گزشتہ برس اور رواں برس کی جانے والی ایسی ہی کارروائیوں سے مختلف علاقوں سے 6012 چینی باشندے بھی بازیاب کرکے واپس چین بھجوائے جاچکے ہیں۔
عالمی سطح پر مالیاتی فراڈ کے لئے کمبوڈیا اور میانمار میں چلائے جانے والے ان سائبر اسکیم سینٹرز کے لئے مافیا نیٹ ورک کے کارندے تھائی لینڈ کی کمپنیوں سے حاصل کردہ انٹرنیٹ، سرور سروس کے علاوہ ہوسٹنگ وغیرہ کی خدمات حاصل کر رہے ہیں، جس کے عوض سالانہ کروڑوں روپے ڈالر تھائی لینڈ کی کمپنیاں منافع کما رہی ہیں۔ اس معاملے کے عالمی سطح پر اٹھنے کے بعد اب تھائی لینڈ کے حکام نے اپنی کمپنیوں کی جانب سے ان ان ممالک کے سرحدی علاقوں میں فراہم کئے جانے والے انٹر نیٹ اور الیکٹرک سٹی کنکشن منقطع کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔ تاہم ان چاروں ممالک کے درمیان سرحدی علاقے اس قدر گھنے جنگلوں اور دلدلی ناہموار زمینوں پر مشتمل ہیں کہ پرانے روایتی راستوں سے انسانی اسمگلنگ کی نقل حرکت بالکل ختم کرنا ناممکن ہے۔ کیونکہ چاروں ممالک کے درمیان ان سرحدی علاقوں میں تقریباً ایک ہی نسل و زبان کے لوگ آباد ہیں جن کے آپس میں انتہائی مضبوط رابطے ہیں۔
مزید معلوم ہوا ہے کہ ان ممالک میں یہ مافیا 1990ء اور 2000ء کی دھائی کے درمیان کیسینوز یعنی جوا خانوں کے انتہائی لچکدار قوانین کی وجہ سے وجود میں آئی، جس نے بعد ازاں آن لائن جوئے کی شکل اختیار کی اور دنیا بھر سے لوگوں کو آن لائن جوا کھلانے کے علاوہ یہاں آنے کی ترغیب دی جانے لگی۔ ان مقامات پر منشیات فروشی اور جسم فروشی سمیت ہر قسم کے سنگین جرائم کئے جاتے رہے جن میں اغوا برائے تاوان، سپاری کلنگ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ بعد ازاں ان علاقوں میں مختلف متحارب اور علیحدگی پسند تنظیموں کے زیر کنٹرول علاقوں میں اس مافیا نے بڑے پیمانے پر سائبر کرائمز کے لئے بڑے کال سینٹرز قائم کئے، جن کے لئے مختلف ممالک سے ریکروٹمنٹ کی جانے لگی۔ اس وقت یہ سالانہ اربوں ڈالر کی انڈسٹری بن چکی ہے۔