کوئٹہ پولیس سیف سٹی کیمروں سے ملزمان اور گاڑی تک پہنچنے کا دعویٰ کر رہی ہے، فائل فوٹو
 کوئٹہ پولیس سیف سٹی کیمروں سے ملزمان اور گاڑی تک پہنچنے کا دعویٰ کر رہی ہے، فائل فوٹو

جبل نور القرآن کے نایاب نسخے برآمد کرنے میں پولیس ناکام

سید نبیل اختر :

جبل نورالقرآن کے مالکان میں سے ایک بالاج لہڑی بتاتے ہیں کہ پولیس ان کے ہاں سے چوری کیے گئے نادر و نایاب نسخے برآمد کرنے میں ناکام ہے۔ واقعہ کو دو ماہ ہونے کو آئے ہیں۔ تاہم اب تک چوری میں شامل ملزمان کی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چور سات سو برس قدیم 120 احادیث کے نسخے بھی ساتھ لے گئے، جو انتہائی قیمتی تھے۔ بالاج لہڑی کے مطابق شوکیس کے کانچ پر خون کے نمونے بھی ملے ہیں۔ جنہیں تفتیش میں شامل کیا گیا ہے۔ تاہم ابھی تک اس کی جانچ رپورٹ نہیں آئی۔

جبل نورالقرآن کے انچارج اجمل نے بتایا کہ گزشتہ روز انہیں تفتیش پر مامور نئے افسر نے بتایا ہے کہ انہیں سیف سٹی کیمروں کی مدد سے ملزمان کا سراغ ملا ہے۔ ملزمان آلٹو کار میں نسخے بھر کر فرار ہوئے تھے۔ تاہم ان ملزمان کے چہرے واضح نہیں ہو رہے۔ اجمل نے بتایا کہ پولیس افسران رابطہ کرنے پر کہتے ہیں کہ ہم کوشش کر رہے ہیں۔ جلد آپ کے ملزمان پکڑے جائیں گے۔

جبلِ نور کوئٹہ کے انچارج محمد اجمل کے مطابق 21 اور 22 جنوری کی درمیانی شب نامعلوم چور سرنگ میں داخل ہوکر وہاں بنی الماریوں کے شیشوں میں بند قدیم قرآنی نسخے اپنے ساتھ لے گئے۔ نیز چوروں نے جاتے وقت تمام شوکیسوں کے شیشے بھی توڑ دیئے۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ صبح جبل نور القرآن پہنچے تو سرنگ کے دروازے کا تالہ ٹوٹا ہوا تھا اور وہاں 12 سے زائد شوکیسوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے۔ ’شوکیسوں میں موجود قرآن پاک کے قدیمی نسخے وہاں سے غائب تھے۔ ہم نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی۔ تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ جبل نورالقرآن کے چوکیدار زری خان کے مطابق 19 دسمبر کو بھی صبح 10 بجے دو افراد زیارت کیلئے اندر آئے تھے۔ اس دوران انہوں نے شوکیس کے شیشے توڑے اور قرآن پاک کے دو قدیمی نسخے اپنے ساتھ لے گئے۔ جب میں نے منع کیا تو انہوں نے مجھے شدید زدوکوب کر کے بے ہوش کر دیا۔ جس کے بعد میں نے مقامی پولیس سٹیشن کو اطلاع دی۔

انہوں نے بتایا کہ ’22 جنوری کی رات کو میں 11 بجے تک ڈیوٹی پر موجود تھا۔ جس کے بعد میں تمام دروازے لاک کر کے گھر چلا گیا۔ صبح جب واپس ڈیوٹی پر آیا تو تالے ٹوٹے ہوئے تھے۔ متعلقہ تھانے کے ایک افسر کا کہنا تھا کہ ایک ماہ کے دوران یہ دوسری واردات ہے۔ پہلی واردات کی صرف اطلاع رپورٹ کی گئی۔ جبکہ اس بار انچارج کی اطلاع پر باقاعدہ ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

جبل نور القرآن کوئٹہ کے مغربی بائی پاس کے ایک پہاڑ پر واقع ہے۔ جسے 1992ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اس مرکز میں 35 کے قریب سرنگیں موجود ہیں اور ہر سرنگ ایک ہزار سے 1500 فٹ لمبی ہے۔ ابتدا میں یہاں کوئٹہ اور صوبے کے دیگر علاقوں سے قرآن مجید کے ضعیف اوراق اکٹھے کر کے محفوظ کیے جاتے تھے۔ لیکن اب نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر سے قرآن پاک کے نسخے یہاں بھجوائے جاتے ہیں۔ جبل نور اب ایک میوزیم کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

یہاں محفوظ کردہ قرآنی نسخوں میں 600 سے 700 سال قدیم نسخے بھی شامل ہیں۔ یہ نسخے ہاتھ سے لکھے گئے ہیں۔ یہاں موجود قرآنی نسخوں کی تعداد اس وقت تین کروڑ سے زائد ہو چکی ہے۔ جو ترک، ہندی، انڈونیشیائی اور جاپانی زبانوں پر مشتمل ہیں۔ انچارج محمد اجمل نے بتایا کہ جبل نورالقرآن نہ صرف ضعیف اوراق اکٹھا کرنے کا ایک مقام بن چکا ہے۔ بلکہ ملک بھر سے لوگ یہاں زیارت کیلئے آتے ہیں۔

جبل نورالقرآن میں 32 برس سے قرآن پاک سے بھرے لاکھوں بیگ اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ بند غاروں میں موجود قدیمی نسخوں کو دیمک بھی نہیں لگی۔ کبھی بھی کسی قسم کے حشرات غاروں میں نظر نہیں آئے۔ قرآن کریم کے شہید نسخوں کو محفوظ کرنے کیلئے 1500 فٹ لمبی 35 سرنگیں موجود ہیں۔ سرنگیں کھودنے والے مزدوروں کو 300 فٹ تک آکسیجن کی کمی کا سامنا نہیں ہوا۔ اندورن کوئٹہ کے بعد ملک بھر سے قرآنی نسخوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ہمسایہ ممالک سے بھی بڑی تعداد میں ضعیف نسخے جبل نورالقرآن پہنچائے گئے ہیں۔ یہ باتیں جبل نور القرآن کے منتظم اجمل نے امت ٹیم کو بتائی تھیں۔جبل نورالقرآن دو بھائیوں عبدالرشید اور عبدالصمد لہڑی کی ملکیت ہے اور یہ نیک کام انہی کی سرپرستی میں گزشتہ 32 برس سے جاری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ پہاڑ 1990ء میں لیز پر خریدے گئے تھے۔ لیکن ان پہاڑوں کو کسی دوسرے مصارف میں لیا نہیں جا سکتا تھا۔ کیونکہ یہ پہاڑ سخت پتھروں اور بجری کے بنے ہوئے ہیں۔ ان سے نہ تو کرش بنائی جا سکتی ہے اور نہ ہی بجری۔ جس پر ان پہاڑوں میں شہید اور ضعیف قرآنی نسخے محفوظ کرنے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ لہڑی برادران ان نسخوں کو محفوظ بنانے، انہیں جمع کرنے اور بے ادبی سے بچانے کا کام 80 کی دہائی کے اختتام سے ہی شروع کر چکے تھے۔ جبکہ قرآن مجید کے ضعیف اوراق اور دیگر نسخے بڑی تعداد میں آرہے تھے۔ جس پر جگہ کم پڑ گئی تو خریدے گئے پہاڑوں کو جبل نورالقرآن بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس ادارے کا قیام 1992ء میں کلام الہی کی حُرمت کو برقرار رکھنے کیلئے عمل میں لایا گیا۔

جبل النور القرآن میں 400 پرانے نسخے اب بھی نہایت اچھی حالت میں رکھے ہیں۔ یہاں 12 مہینے قرآنِ پاک کو محفوظ بنانے کا کام جاری رہتا ہے۔ بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ صوبائی دارالحکومت کے نواحی علاقے مغربی بائی پاس پر جبل نور کی پہاڑی ایسی ہے، جسے خصوصی اہمیت حاصل ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اِس پہاڑ کے اندر کوئی ٹیکنالوجی استعمال کیے بغیر ہزار فٹ غار کھودے گئے ہیں۔ جہاں مدارس، مساجد، گھروں اور دیگر مقامات پر ضعیف اور شہید ہونے والے کلام الہی کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ جبکہ بعض ضعیف اوراق کو تبدیل کرکے دوبارہ مساجد میں پڑھنے کیلئے بھیج دیا جاتا ہے۔

جبل نور میں 35 سُرنگیں کسی قسم کی مشینری استعمال کیے بغیر کھودی گئی ہیں۔ جن کی چوڑائی چھ سے آٹھ فٹ اور لمبائی 130 فٹ تک ہے۔ ان سرنگوں میں کلام پاک کے صفحات کو بوریوں میں ڈال کر محفوظ کیا جاتا ہے اور سرنگ کے آخری کونے تک بھی آکسیجن کی کمی کے مسائل نہیں ہوتے۔ یہ سرنگیں ہوادار اور کشادہ ہیں۔ یہاں مردوں اور خواتین کی عبادت کیلئے بھی الگ الگ جگہیں بنائی گئی ہیں۔ جبل نور کے ایک خدمت گار کے مطابق ادارے کے قیام کے بعد اس کے ملازمین کوئٹہ شہر اور گردونواح کی مساجد، مدارس اور قبرستانوں سے شہید اور ترک کیے جانے والے کلام پاک کو جمع کرکے جبل النور القرآن میں لاتے تھے۔