عمران خان :
حج سیزن سے قبل ہی رمضان المبارک کے آخری عشرے میں خدام حجاج کے نام پر شہریوں سے لاکھوں روپے لوٹنے والے نوسر باز سرگرم ہوگئے۔ مقدس کام کی آڑ میں کئی ٹریول ایجنٹوں کی جانب سے بھی فری ویزوں، کھانا اور رہائش کے نام پر یہ کام شروع کردیا گیا ہے۔
میڈیکل اور رجسٹریشن کے نام پر ناقابل واپسی فیس میں ہی کروڑوں روپے بٹورنے کا انکشاف ہوا ہے۔ جس کیلئے فیس بک، یو ٹیوب، مختلف ویب سا ئٹس، انسٹا گرام، ٹک ٹاک اور واٹس ایپ کے علاوہ کئی اخبارات میں اشتہارات بھی چلائے جا رہے ہیں۔ ان نوسر بازوں کو سادہ لوح شہری دھڑا دھڑ درخواستیں دے رہیں۔ ایف آئی اے نے فراڈ بڑھنے پر الرٹ جاری کردیا۔ جبکہ وزارت مذہبی امور کی جانب سے بھی آگہی مہم شروع کی جا رہی ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق حکومتی اداروں کی نا اہلی اور غیرسنجیدگی کے سبب حج کے دوران خدام کے نام پر غیر متعلقہ افراد کے سعودیہ جانے اور اس کی آڑ میں ہونے والی انسانی اسمگلنگ کے فراڈ کا سلسلہ تھم نہیں سکا۔ اس بار بھی یہ معاملہ بھرپور انداز میں سامنے آگیا ہے۔ جس سے سعودیی میں پاکستان کی مزید سبکی اور بدنامی ہو رہی ہے۔ تاہم متعلقہ سرکاری ادارے خاموشی اختیار کیے بیٹھے ہیں۔
دوسری جانب سیزن لگانے والے درجنوں ایجنٹ کروڑوں روپے بٹور کر منظر عام سے غائب ہوچکے ہیں۔ اس ضمن میں گزشتہ روز ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز کی جانب سے ایک وڈیو الرٹ بھی جاری کیا گیا کہ، شہری اس وقت سوشل میڈیا، مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر چلائے جانے والے ایسے اشتہارات کے جھانسے میں نہ آئیں، کیونکہ یہ فراڈ ہیں۔ خدام کو بھجوانا وزارت مذہبی امور کے تحت سرکاری ذمے داری ہے۔ ان اشتہارات میں حاجیوں کا سامان اٹھانے، پانی پلانے، صفائی کرنے، فرسٹ ایڈ کے ماہر، پلمبر، مکینک، الیکٹریشن سمیت دیگر قسم کے شعبوں میں کام کرنے کا جھانسا دیا جاتا ہے۔ جبکہ درخواست گزاروں کو صرف چند روز میں فری ویزہ، اچھی تنخواہ اور ساتھ حج کرنے کا جھانسا د یکر ایڈوانس رقم کے ساتھ درخواستیں دینے کیلئے کہا جاتا ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان سے خدام حجاج کے نام پر سینکڑوں رضاکاروں کو ہر سال مفت سعودیہ لے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ جس میں ہر سال ہی ملی بھگت سے زیادہ تر ایسے افراد کو بھجوایا جاتا ہے جن کا رضاکاروں کے کام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ مفت حج کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں یا پھر اس عرصہ میں سعودیہ میں ملازمت تلاش کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اسی دوران ہر سال حج سیزن میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث فراڈیئے سوشل میڈیا پر وزارت مذہبی امور کا لوگو لگا کر جعلی اشتہارات چلانے لگتے ہیں، جس میں عام شہریوں کو خدام کے نام پر ماہانہ 1600 ریال سے 2 ہزار ریال معاوضے کی پُرکشش ملازمت کا جھانسا دیا جاتا ہے۔ ملک میں جاری بے روزگاری کے سبب سینکڑوں افراد ان جعلسازوں کے چنگل میں آجاتے ہیں اور لاکھوں روپے دے کر سعودیی جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ذرائع کے بقول 2022ء میں یہ معاملہ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ آخر وزارت مذہبی امور نے باقاعدہ تحریری اعلامیہ جاری کرکے سعودی عرب میں خدام اور رضاکاروں کی بھرتیوں سے متعلق اشتہارات کو جعلی قرار دیا۔ اس وقت سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پوسٹ شیئر کرتے ہوئے وفاقی وزارت مذہبی امور و ہم آہنگی نے عوام کو متنبہ کیا تھا کہ سوشل میڈیا پر حج و عمرہ کی مقدس عبادات کے نام پر خدام، رضاکار بھرتیوں کے فراڈ اشتہاروں سے محتاط رہیں۔
وزارت مذہبی امور کبھی ایسے اشتہار جاری نہیں کرتی۔ اسی کے ساتھ بیورو آف امیگرنٹس کے ڈپٹی ڈائریکٹر صفدر محمود کے دستخط سے اسلام آباد سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا کہ ’’عوام الناس کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ بیورو آف امیگریشن اینڈ اور اوورسیز ایمپلائمنٹ یا کسی بھی پروٹیکٹوریٹ آف امیگرینٹس کی طرف سے کسی ریکروٹنگ ایجنسی کو خدام الحجاج کی بھرتی کیلئے کوئی اجازت نامہ جاری نہیں کیا گیا۔
اس سلسلے میں اخبارات یا سوشل میڈیا کے ذریعے بعض غیر قانونی ایجنٹوں کے نام سے دیے جانے والے اشتہارات جعلی ہیں، جن کے خلاف کاروائی کیلئے ایف آئی اے سے درخواست کی گئی ہے۔ لہذا اس فراڈ سے بچیے اور کسی کو کوئی رقم ہر گز ادا نہ کی جائے‘‘۔ ذرائع کے بقول سعودیہ میں حج سیزن کے دوران سعودی حکام کی جانب سے 9 سے 10 ہزار تک خدام یا رضاکار تعینات کیے جاتے رہے ہیں۔
عمومی طور پر اسلامی ممالک سے یہ خدام منگوائے جاتے ہیں۔ پاکستان سے بھی ہر سال سینکڑوں خدام وزارت مذہبی امور کے توسط سے بجھوائے جاتے ہیں۔ جس کیلئے سرکاری اداروں سے کوائف اور افراد طلب کیے جاتے ہیں۔ 2018ء میں سعودی حکام کی جانب سے یہ دیکھا گیا کہ سینکڑوں خدام ایسے بھی بھجوائے گئے جو مفت میں آکر حج کر کے چلے جاتے ہیں۔ تاہم وہ اپنا رضاکار والا کام نہیں کرتے۔ اسی بنیاد پر ان پر پابندی بھی عائد کی گئی اور کہا گیا کہ خدام تعینات کرنے کا کام حج کے دوران انتظامی امور کے ٹھیکے لینے والی کمپنیوں کی ہوگی۔
ذرائع کے بقول پاکستان سے 2017ء سے 2020ء تک 700 کے قریب خدام بھجوائے گئے۔ جن کے سفری اخراجات اور رہائش کے ساتھ کھانا پینا سرکاری خرچے پر کیا گیا۔ تاہم کروڑوں روپے کے اخراجات کے عوض سینکڑوں غیر متعلقہ افراد گئے، جو خدام کا کام کرنے کے بجائے حج کرکے واپس آگئے۔ اس معاملے پر 2022ء میں ہی قائمہ کمیٹی کی جانب سے نوٹس لیا گیا۔ تاہم بعد ازاں اس معاملے پر خاموشی اختیار کرلی گئی۔ اس وقت بھی ایسے سینکڑوں اشتہارات گردش میں ہیں۔ جن پر ان نوسر بازوں کے رابطہ نمبرز اور آفس ایڈریس موجود ہیں۔ جن کے ذریعے ایف آئی اے کی ٹیمیں ملک بھر میں ان کیخلاف کریک ڈاؤن کرکے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کرسکتی ہیں۔