امت رپورٹ :
سلمان اکرم راجہ اس وقت عمران خان، بشری بی بی اور علیمہ خان کے بعد پی ٹی آئی کی سب سے طاقتور شخصیت ہیں۔ واقفان حال کے بقول اس وقت عمران خان پارٹی رہنماؤں میں سب سے زیادہ کسی کی بات سنتے ہیں تو وہ سلمان اکرم راجہ ہی ہیں۔ وہ اس وقت اس پوزیشن میں ہیں کہ پارٹی میں جسے چاہیں سائیڈ لائن کرادیں۔ اس کی واضح مثال شیر افضل مروت ہیں۔ سلمان اکرم راجہ کے مختصر سے سیاسی سفر میں اس قدر کامیابی کے پیچھے پوری ایک کہانی ہے۔ جس کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے، جب عمران خان وزیر اعظم تھے اور سلمان اکرم راجہ محض ایک وکیل۔ ان دنوں علیمہ خان کے خلاف بیرون ملک بے نامی جائیداد کا کیس چلا تو سلمان اکرم راجہ ان کے وکیل تھے اور انہوں نے علیمہ خان کو بیل آؤٹ کرایا۔ تب سے وہ عمران اور علیمہ کے لاڈلے ہیں۔
واضح رہے کہ عمران خان کے دور وزارت میں ان کی بہن علیمہ خان کے خلاف بیرون ملک بے نامی جائیداد رکھنے کا کیس منظر عام پر آیا تھا۔ جس پر علیمہ خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سلائی مشینوں کی کمائی سے بیرون ملک جائیدادیں بنائیں۔ اس پر متعدد میمز بھی بنی تھیں۔ جب یہ کیس سپریم کورٹ میں گیا تو عدالت عظمیٰ نے محض جرمانہ کرکے انہیں چھوڑ دیا تھا۔ علیمہ خان کو دبئی میں جائیداد ظاہر نہ کرنے پر انتیس اعشاریہ چار ملین روپے جمع کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔ تاہم انہیں نہ آمدنی کا ذریعہ ظاہر کرنے کے لیے کہا گیا اور نہ ہی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو ان کے ذرائع آمدن یا عدالت میں پیش کی گئی منی ٹریل کی صداقت کی تحقیقات کا حکم دیا گیا۔ حالانکہ اسی روز سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف انیس سو چھیاسی میں پاکپتن ضلع میں اوقاف کی اراضی مبینہ طور پر الاٹ کرنے کے الزام میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔ جبکہ مریم نواز سے بھی کہا گیا تھا کہ وہ مے فیئر اپارٹمنٹس کے سلسلے میں جے آئی ٹی کے سامنے اپنی بے گناہی ثابت کریں۔
اس سارے معاملے سے آگاہ ذرائع کے مطابق بطور وکیل سلمان اکرم راجہ نے اس کیس میں علیمہ خان کو سپریم کورٹ سے ریلیف دلانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ یہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا دور تھا۔ علیمہ خان خان کا کیس بھی سپریم کورٹ کا جو تین رکنی بنچ سن رہا تھا، اسے چیف جسٹس ثاقب نثار ہیڈ کر رہے تھے اور ان کے ساتھ دو ہم خیال ججز سن رہے تھے۔ یعنی یہ ہم خیال ججز کے ایک پیج کا دور تھا۔ سلمان اکرم راجہ کے ثاقب نثار سے خوشگوار تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔ سلمان اکرم راجہ نے علیمہ خان کا کیس لڑ کر انہیں محض جرمانے تک محدود رکھنے میں کامیاب رہے۔ ذرائع کے بقول تب سے وہ عمران خان اور علیمہ خان کی آنکھ کا تارہ ہیں کہ تب عمران خان بطور وزیراعظم اس کیس سے بہت پریشان تھے۔ اس وقت کی اپوزیشن نون لیگ اور پیپلز پارٹی اسے سیاسی ایشو کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس کا موازنہ پاناما کیس سے کر رہی تھی۔ سلمان اکرم راجہ کی وکالت اور ثاقب نثار کی شفقت سے انہیں اس الجھن سے نجات مل گئی۔
دلچسپ امر ہے کہ سلمان اکرم راجہ اس قانونی ٹیم کا حصہ بھی تھے، جس نے پاناما پیپرز کیس کے دوران نواز شریف کی وکالت کی تھی۔ تاہم بعد میں وہ عمران خان کے وکیل ہوکر رہ گئے۔ انہوں نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف عدت نکاح کیس کی پیروی بھی کی اور انہیں ریلیف دلایا۔ یوں وہ بشریٰ بی بی کی گڈ بک میں بھی آگئے۔ ایسے میں فروری دو ہزار چوبیس کے عام انتخابات آئے تو جہاں بہت سے وکلا نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے، ان میں سلمان اکرم راجہ بھی شامل تھے۔ انہیں خدمات کے صلے میں قومی اسمبلی کا ٹکٹ ملا۔ انہوں نے لاہور کے حلقہ این اے ایک سو اٹھائیس سے الیکشن لڑا۔ لیکن عون چوہدری سے ہار گئے۔
دو ہزار چوبیس سلمان اکرم راجہ کے لیے خوش قسمت سال رہا۔ انہوں نے بطور وکیل پی ٹی آئی کے لیے مخصوص نشستوں کا کیس جیتا۔ سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستوں کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کالعدم قرار دے دیئے اور کہا کہ تحریک انصاف مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔ اگر چہ تیرہ رکنی فل کورٹ کے سربراہ قاضی فائز عیسیٰ تھے۔ تاہم پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دینے والے اکثریتی ججز کے بارے میں ہم خیال ہونے کا تاثر عام تھا۔ اس کامیابی پر سلمان اکرم راجہ کی لاٹری کچھ اس طرح کھلی کہ وہ پہلے سے زیادہ عمران خان کے قریب ہوگئے۔ پہلے انہیں پی ٹی آئی کے قانونی امور کا سربراہ مقرر کیا گیا اور بعد میں بغیر انٹرا پارٹی الیکشن پی ٹی آئی کا سیکریٹری جنرل مقرر کردیا گیا۔
یہ سیاسی پارٹیوں کی تاریخ میں انتہائی مختصر وقت میں تیز رفتار ترقی کا انمول ریکارڈ ہے۔ اس پر پارٹی کے اندر سے چند منمناتی صدائے احتجاج ضرور بلند ہوئیں۔ لیکن کھل کر کسی میں عمران خان کے فیصلے سے اختلاف کی جرأت نہ ہوسکی۔ واحد شیر افضل مروت تھے، جنہوں نے پوری توانائی کے ساتھ اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس کا خمیازہ انہیں یہ بھگتنا پڑا کہ وہ پارٹی سے نکال دیئے گئے۔ باقیوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ سلمان اکرم راجہ کی طاقت سے ٹکرانے کی کوشش نہ کریں۔ پارٹی میں اس وقت سلمان اکرم راجہ کے اثرورسوخ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ہی یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ اڈیالہ جیل میں عمران خان سے کون سا وکیل یا پارٹی رہنما ملے گا۔ منگل کے روز جب عمران خان سے ملاقاتیوں کی فہرست میں انہوں نے خلاف توقع بابر اعوان کا نام دیکھا تو وہ بھڑک اٹھے اور انہوں نے اس پر باقاعدہ احتجاج کیا کہ ان کی مرضی کے بغیر یہ نام کس نے شامل کیا۔