واشنگٹن اور تہران کے درمیان کشیدگی میں شدت آگئی ہے، جب کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران پر بمباری کی دھمکی کے بعد ایران نے اپنے زیرِ زمین میزائل لانچنگ مراکز کو الرٹ موڈ میں ڈال دیا ہے۔
ایرانی سرکاری میڈیا ”تہران ٹائمز“ کے مطابق، تہران نے واضح کیا ہے کہ وہ کسی بھی ممکنہ امریکی حملے کی صورت میں ’امریکہ سے متعلقہ اہداف‘ کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
اتوار کے روز، سابق امریکی صدر ٹرمپ نے این بی سی نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا، ’اگر وہ معاہدہ نہیں کرتے تو بمباری ہوگی، ایسی بمباری جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔‘ اس کے علاوہ، ٹرمپ نے ایران پر ’ثانوی پابندیاں‘ لگانے کی بھی دھمکی دی۔
واشنگٹن میں ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے مطالبات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جبکہ ایران نے براہِ راست مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے بالواسطہ بات چیت کے لیے دروازے کھلے رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔
ایرانی صدر مسعود پزشکیاں نے ٹی وی خطاب میں کہا، ’ہم مذاکرات سے نہیں گھبراتے، لیکن وعدہ خلافیوں نے ہمارے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔ انہیں پہلے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اعتماد قائم کر سکتے ہیں۔‘
ایران کے اس بیان کے بعد، امریکی وزارت خارجہ نے ایک بار پھر سخت موقف اپناتے ہوئے کہا کہ ’ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ ایران مذاکرات کی میز پر آئے، ورنہ صورتحال بہت خراب ہو جائے گی۔‘
ایران نے حال ہی میں ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں اس کی ’میزائل سٹی‘ دکھائی گئی ہے، جہاں جدید میزائل ذخیرہ کیے گئے ہیں۔ اس ویڈیو میں ایرانی فوجیوں کو ایک اسرائیلی پرچم پر پاؤں رکھتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔
سرکاری ایرانی میڈیا ’پریس ٹی وی‘ نے گزشتہ ہفتے ایک رپورٹ میں مشرق وسطیٰ میں موجود مختلف امریکی فوجی اڈوں کو ایران کے ممکنہ حملوں کا ہدف قرار دیا ہے۔