محمد قاسم:
افغان مہاجرین کو دی گئی ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں سے افغان خاندانوں کی واپسی جاری ہے۔ تاہم جائیدادوں کے بعد افغان مہاجرین کو گاڑیوں کی فروخت میں مشکلات درپیش ہیں اور انہوں نے گاڑیوں کی نیلامی کیلئے اس کاروبار سے وابستہ افراد سے رابطے کیے ہیں۔ جو ان کی گاڑیوں کی بولیاں لگا رہے ہیں۔ جبکہ رکشہ و ٹیکسیوں کی بھی بولیاں لگنا شروع ہو گئی ہیں اور موٹر سائیکلیں بھی بیچی جانے لگی ہیں۔
ذرائع کے مطابق پشاور صدر سمیت حیات آباد، کارخانو مارکیٹ اور دیگر مقامات پر افغان مہاجرین نے گاڑیوں کی فروخت کیلئے بڑے شو رومز سے رابطے کیے ہیں۔ تاہم وہاں پر 50 لاکھ سے زائد پر خریدی گئی گاڑیوں کے کوئی 30 لاکھ بھی دینے کو تیار نہیں۔
پشاور میں گاڑیوں کی لین دین کرنے والے ملک فیضان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان سے متعدد افغان مہاجرین نے اپنی گاڑیاں فروخت کرنے کیلئے رابطہ کیا ہے۔ جبکہ انہوں نے گاڑیوں کے ماڈل اور قیمت ایسے افراد کو دکھائی ہے جو اس کاروبار میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ گاڑیاں افغان مہاجرین کی ہیں تو انہو ں نے مناسب قیمت دینے پر رضا مندی ظاہر نہیں کی۔ بلکہ انتہائی کم ریٹ مقرر کیے ہیں۔
لوگوں کو معلوم ہے کہ افغان مہاجرین آج نہیں تو کل اپنے وطن واپس جائیں گے۔ اس طرح وہ نہ تو ان کو جائیدادوں کی مناسب قیمت دے رہے ہیں اور نہ ہی گاڑیاں کی وہ قیمت ادا کر رہے ہیں جس پر انہوں نے گاڑیاں خریدی تھیں۔ حالانکہ اس میں بعض ایسی گاڑیاں بھی ہیں کہ جن کی قیمت گرنے کے بجائے بڑھ گئی ہے۔ تاہم جس ریٹ پر افغان مہاجرین نے گاڑیاں خریدی تھیں، اس ریٹ پر بھی فروخت نہیں ہو رہی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ معاشی مسائل بھی ہیں کیونکہ لوگوں کے پاس سرمایہ نہیں کہ وہ اضافی گاڑیاں خرید سکیں۔ تاہم بڑے شور رومز کے مالکان سمیت گاڑیوں کی خرید و فروخت کا کاروبار پشاور میں عروج پر ہے اور یہ بہت ہی منافع بخش کاروبار بھی ہے۔
دوسری جانب پشاور کے کوہاٹی اور بیرسکو میں موٹر سائیکلوں کی ورکشاپس میں افغان نوجوانوں نے اپنی موٹر سائیکلیں فروخت کیلئے لانا شروع کر دی ہیں اور جو قیمت مل رہی ہے اس پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔ جبکہ سرکی گیٹ کے قریب رکشوں اور ٹیکسیوں کے اسٹینڈز بھی آباد ہو گئے ہیں۔ جہاں پر ان کی بولیاں لگ رہی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض افغان مہاجرین نے اپنی گاڑیاں فروخت کرنے کیلئے پشاور کے مقامی افراد کی خدمات حاصل کی ہیں تاکہ ان سے لوگ مناسب قیمت پر گاڑیاں خرید لیں۔ کیونکہ اگر ان کو معلوم ہوا کہ یہ افغان مہاجرین کی ہیں تو قیمت کم لگائیں گے۔ دوسری جانب ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ افغانستان جانے والے مہاجرین کیلئے حکومت پاکستان نے پنجاب سمیت ملک بھر سے آنے والی گاڑیوں کو بغیر TAD کاغذ بارڈر کراس کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ پاک افغان طورخم بارڈر پر افغان مہاجرین کو افغانستان لے جانے والی گاڑیوں کو بارڈر پر بغیر TAD دستاویزات افغانستان جانے کی اجازت نہیں تھی۔ جس کے باعث افغانستان واپس جانے والے خاندانو ں کو بہت تکالیف کا سامنا تھا۔
طورخم بارڈر پر گزشتہ سال سے TAD یعنی ٹیمپریری ایڈمیشن ڈاکومنٹس پالیسی نافذ ہے اور مذکورہ دستاویزات نہ رکھنے والی گاڑیوں کو افغانستان جانے کی اجازت نہیں تھی۔ پنجاب سمیت پاکستان بھر سے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے اور ان کو طورخم بارڈر پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ جن گاڑیوں میں افغان خاندان گھریلو سامان لے جانا چاہتے ہیں، ان میں اکثر گاڑیاں پنجاب کی ہیں۔ جن کے پاس TAD موجود نہیں۔
تاہم اس فیصلے پر افغان مہاجرین نے حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کیلئے انتہائی مشکل مسئلہ آسان ہو گیا ہے اور اب آسانی کے ساتھ اپنا سامان وطن واپس لے جاسکتے ہیں۔ کیونکہ اگر یہ مسئلہ حکومت پاکستان حل نہ کرتی تو سامان اپنے ملک لے جانا انتہائی مشکل تھا اور مجبوری کے باعث قیمتی سامان یہاں پر ہی فروخت کر کے خالی ہاتھ اپنے وطن واپس جانا پڑتا۔ حکومت پاکستان نے ایک اہم اقدام اٹھا کر افغان مہاجرین کی مشکل حل کر دی ہے۔