فائل فوٹو
فائل فوٹو

تجارتی جنگ میں شدت، چین پر ٹیرف 245 فیصدکردیا گیا

واشنگٹن: امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی درآمدات پر ٹیرف کی شرح 245 فیصد تک بڑھا دی ہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ ایک فیکٹ شیٹ کے مطابق یہ اقدام چین کی جوابی کارروائیوں کے ردعمل میں اٹھایا گیا ہے۔

یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بیجنگ نے امریکی پابندیوں کے جواب میں اپنی ایئرلائنز کو مزید بوئنگ طیارے وصول کرنے سے روک دیا ہے۔ چین کی جانب سے امریکی طیارہ ساز کمپنیوں کے پرزے اور آلات خریدنے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

وائٹ ہاؤس فیکٹ شیٹ میں کہا گیا ہے کہ اب تک 75 سے زائد ممالک نے امریکہ سے نئے تجارتی معاہدوں کے لیے رابطہ کیا ہے جس کے بعد کئی ملکوں کے لیے ٹیرف عارضی طور پر روک دیے گئے ہیں۔ تاہم چین کی جوابی کارروائی کے باعث اس پر زیادہ ٹیرف لاگو کر دیے گئے ہیں۔

اس اعلان کے بعد وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے ایک بیان میں کہا کہ "گیند اب چین کے کورٹ میں ہے، چین کو امریکہ کے ساتھ معاہدہ کرنا ہوگا، ہمیں ان کے ساتھ معاہدہ کرنے کی ضرورت نہیں۔”

چینی وزارتِ خارجہ نے اپنے ردعمل میں کہا کہ وہ محاذ آرائی نہیں چاہتے لیکن خاموش بھی نہیں رہیں گے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اگر امریکہ واقعی مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے تو اسے دھمکیوں اور دباؤ کی پالیسی ترک کرنی ہوگی اور برابری کی بنیاد پر بات چیت کرنی ہوگی۔چینی حکومت کے ایک اور ترجمان ژانگ شیاوگانگ نے خبردار کیا کہ امریکی ٹیرف میں اضافہ امریکہ کی عظمت بحال نہیں کر سکتا۔

کیا چین امریکی قرض کو تجارتی جنگ میں بطور ہتھیار استعمال کر سکتا ہے؟

چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ شدت اختیار کر گئی ہے، دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر سخت ترین ٹیرف عائد کیے ہیں۔  چین نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ "آخری حد تک لڑنے” کے لیے تیار ہے۔ یہ تجارتی جنگ محض ٹیرف یا برآمدات تک محدود نہیں بلکہ معاشی میدان میں ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی جنگ بن چکی ہے۔ ایسے میں چین کے پاس ایک ایسا ہتھیار موجود ہے جو روایتی تجارتی پابندیوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ، اور وہ  امریکی قرض ہے۔

الجزیرہ ٹی وی کے مطابق چین اس وقت امریکہ کا دوسرا سب سے بڑا قرض خواہ ہے جو 760 ارب ڈالر کے امریکی ٹریژری بانڈز رکھتا ہے۔ ماہرین کے مطابق چین یہ قرض فروخت کر کے امریکی ڈالر کی قدر کو کم کر سکتا ہے جس سے امریکہ کی معیشت پر بڑا اثر پڑے گا۔ اس سے امریکی سود کی شرحوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے سرمایہ کاری اور گھریلو اخراجات متاثر ہوں گے۔اس اقدام کو ماہرین معاشیات نے "نیوکلیئر آپشن” کا نام دیا ہے۔

دوسری جانب امریکی فیڈرل ریزرو اس اقدام کا مقابلہ کرنے کیلئے  کوانٹیٹیٹیو ایزنگ کا استعمال کرسکتا ہے۔ اس اقدام  کے ذریعے مارکیٹ میں سرمائے کا اضافہ کر کے اقتصادی سرگرمیوں کو بحال کیا جاسکتا ہے،  امریکی حکومت اپنے بانڈز خود خرید لے گی ، شرح سود میں کمی کرکے سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی کوشش کرے گی۔ تاہم تجارتی پالیسی میں آئے روز کی تبدیلیوں کے باعث امریکی مالیاتی پالیسی سازوں کے لیے مستقبل کی منصوبہ بندی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ صارفین میں بھی بے چینی بڑھ رہی ہے اور مالی عدم استحکام کے خدشے پر اخراجات میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔