آبی جارحیت بھارتی ڈیمز کیلئے تباہی کا پیغام بن سکتی ہے

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے ذریعے بھارت کو جامع انداز اور سخت ترین الفاظ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کا پانی روکنے سے باز رہے ۔ایسے کسی اقدام کو اعلان جنگ تصور کیا جائے گا اور اس حوالے سے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔مبصرین کے مطابق وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس کے بعد اعلامیہ کے ذریعے جہاں بھارت کی جانب سے اعلان کردہ دیگر اقدامات کا نکتہ وار عملی جواب دیا گیا ہے،وہاں اضافی اقدام کے طور پر بھارت کی تمام پروازوں کے لیے فضائی حدود بند کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے تاہم اعلامیے کا اہم ترین نکتہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے یکطرفہ بھارتی اعلان کا منہ توڑ جواب ہے جس میں مذکورہ اعلان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے بھارت پر واضح کیا گیا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ دو طرفہ نہیں بلکہ عالمی بینک اس کا ضامن ہے اور معاہدے میں یکطرفہ معطلی کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔بیان کے مطابق پانی پاکستان کی ناگزیر قومی ضرورت اور 24 کروڑ عوام کی لائف لائن ہے جس کی دستیابی کا تحفظ ہر قیمت پر کیا جائے گا۔سندھ طاس معاہدے کے برخلاف پانی کا بہاؤ روکنے یا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش اور نچلے دریا کا پانی غصب کرنے کے عمل کو "ایکٹ آف وار "تصور کیا جائے گا جس کا جواب قومی طاقت کے پورے اسپیکٹرم میں بھرپور قوت سے دیا جائے گا۔دفاعی مبصرین کے مطابق مذکورہ پیراگراف اپنے اندر ایک جہان معنی رکھتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پانی پاکستانیوں کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے اور بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کی کسی بھی شکل کو روکنے کے لیے وہ تمام جنگی وسائل بروئے کار لائے جائیں گے جن کی صلاحیت پاکستان ایک ایٹمی طاقت کے طور پر رکھتا ہے۔بعض ماہرین اس کی تشریح آبی جارحیت کی صورت میں بھارتی ڈیمز کو نشانہ بنائے جانے کے انتباہ کے طور پر کر رہے ہیں۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت بگلہار ڈیم۔کشن گنگا ڈیم اور وولر بیراج جیسے متنازعہ آبی منصوبوں کے ذریعے پہلے ہی پاکستان کے حصے کا 20 فیصد پانی غصب کر رہا ہے۔اس حوالے سے حکومت پاکستان پہلے بھی ورلڈ بینک اورعالمی عدالت انصاف سے رجوع کر چکی ہے۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ نریندر مودی نے برسر اقتدار آنے کے بعد سندھ طاس معاہدے کو خاص طور پر نشانے پر لے رکھا ہے اور 2016 میں مودی حکومت نے معاہدے پر نظر ثانی اور ترمیم کے لیے ایک بین الوزارتی کمیٹی بھی بنائی تھی جبکہ جنوری 2023 میں معاہدے پر نظر ثانی کے لیے حکومت پاکستان کو نوٹس بھی جاری کیاگیا تھا جس کا مقصد سندھ طاس معاہدے کو غیر موثر بنانا اور کسی تنازعہ کی صورت میں پاکستان کو عالمی فورمز پر جانے سے روکنا تھا تاہم پاکستان نے اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔
دوسری جانب بحیرہ عرب میں طیارہ بردار بھارتی بحری بیڑے کی نقل و حرکت کی اطلاع پر پاکستان کی جانب سے میزائل ٹیسٹ کا نوٹس دیے جانے کی اطلاع ہے جس سے ماحول میں تناؤ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔واضح رہے کہ کسی بھی ممکنہ جارحیت کو روکنے کے لیے پاکستان نے اپنی فورسز کو پہلے ہی ہائی الرٹ کر رکھا ہے اور کنٹرول لائن کے اس پاس پیٹرولنگ بڑھا دی گئی ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ دوست ممالک کی مداخلت پر کشیدگی میں کمی آ سکتی ہے تاہم دونوں ملکوں کے درمیان محدود جنگ کے خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔یاد رہے کہ فروری 2019 میں پلوامہ واقعے کے بعد بھارت کی جانب سے بالاکوٹ حملے کے صرف 24 گھنٹے کے اندر پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے دو بھارتی جنگی طیاروں کو مار گرایا تھا اور بھارتی پائلٹ ابھینندن کو قیدی بنا لیا گیا تھا۔