تحریر: غلام حسین غازی
خیبرپختونخوا حکومت کا نئے مالی سال کا بجٹ محض ایک سالانہ مالی گوشوارہ نہیں بلکہ غیر معمولی اور حقیقت پسندانہ حکمت عملی کا آئینہ دار ہے۔ یہ بجٹ ایسے مشکل ترین معاشی، سیاسی اور جغرافیائی حالات میں پیش کیا گیا ہے جن میں دیگر صوبے بالخصوص پنجاب اور سندھ اپنے بے پناہ مالی وسائل کے باوجود وفاقی سہاروں، قرضوں اور مراعات کے بل بوتے پر بمشکل اپنے مالی ڈھانچے کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ تاہم خیبر پختونخوا حکومت نے محدود وسائل اور مسلسل محرومیوں کے باوجود ایک متوازن اور ترقیاتی بجٹ پیش کرکے نہ صرف اپنی بصیرت کا ثبوت دیا ہے بلکہ باقی صوبوں کے لیئے بھی ایک قابل تقلید مثال قائم کی ہے۔ یہ وزیراعلی علی امین گنڈاپور کی فعال قیادت میں موجودہ صوبائی کابینہ کی دوراندیشی کا بین ثبوت ہے۔
جب ملک بھر میں پہاڑ جیسی مہنگائی کے جن نے بوتل سے نکل کر گھر گھر رخ کر لیا ہو، روپے کی بےقدری نے غریب کا نان نفقہ تک نایاب کر دیا ہو اور تنخواہ دار طبقہ اپنی اجرت کا اندازہ کیلکولیٹر سے نہیں بلکہ دعاؤں سے کرتا ہو، ایسے میں اگر کوئی صوبہ کئی صفحات کے اشتہارات اور شور شرابے کے بغیر خودداری کے ساتھ، مزید قرض لینے کی نوید سنائے بغیر بجٹ پیش کرے تو یہ صرف بجٹ نہیں بلکہ ایک مثال ہی بنتا ہے۔
خیبرپختونخوا کا بجٹ 2025-26 کچھ ایسا ہی مالیاتی بیانیہ ہے جس کی ابتدا اور انتہا یہ حقیقت آشکارا کرتی ہے کہ اگر نیت صاف ہو، ترجیحات درست ہوں اور پاؤں زمین پر ہوں تو کوئی بھی حکومت محدود وسائل میں بھی نہ صرف غریب پروری بلکہ بڑے کام کر سکتی ہے۔ اس سال کا کل بجٹ میزانیہ تقریباً دو کھرب 12 ارب روپے ہے جس میں ایک کھرب 95 ارب روپے سے زائد جاری و ترقیاتی اخراجات کیلئے اور 150 ارب روپے سے زائد کی بچت کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، یعنی بجٹ سرپلس ہے اور خسارے کا نام و نشان نہیں۔ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا بلکہ کئی پرانے بوجھ بھی ہلکے کیئے جا رہے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس بجٹ میں قرض خوری سے مکمل پرہیز کیا گیا ہے۔ سابقہ حکومتوں کا طریقہ یہ تھا کہ قرض لو، اسکیمیں چلا کر ووٹ بٹورو اور بوجھ اگلی نسلوں پر ڈال دو مگر اس بار ہماری صوبائی حکومت نے دو ٹوک اعلان کیا ہے کہ قرض صرف تب لیا جائے گا جب واپسی کی گارنٹی موجود ہو جبکہ پچھلے سالوں کے قرضے اتارنے کیلئے بھی 49 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ یہ فیصلہ صرف مالی دانش مندی ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں سے دیانت داری کا ثبوت بھی ہے۔ اس کے مقابلے میں دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ حکومتوں کے بجٹ پر اجمالی نظر ڈالیئے تو پنجاب حکومت کے تقریباً ساڑھے پانچ کھرب روپے اور سندھ کے ساڑھے تین کھرب روپے بجٹ میں اندرونی و بیرونی قرضوں کا بوجھ نمایاں جبکہ صوبائی جی ڈی پی کی شرح خیبرپختونخوا کے کی نسبت کافی کم ہے جبکہ قرضوں سے نجات کا نہ تو ذکر موجود ہے اور نہ کوئی فکر ہے۔
خیبرپختونخوا کے ترقیاتی منصوبوں میں بھی ایسے شعبوں کو فوقیت دی گئی ہے جو عام آدمی کی زندگی پر براہِ راست اثر ڈالتے ہیں۔ تعلیم پر سب سے زیادہ 363 ارب روپے خرچ کیئے جا رہے ہیں جس سے اسکولوں کی حالت سدھرے گی، نئے تعلیمی ادارے بنیں گے اور معیار تعلیم بھی بہتر بنے گا۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے 39 ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں تاکہ نوجوانوں کو عصری تقاضوں کے مطابق بہتر مواقع ملیں۔ اسی طرح صحت پر 276 ارب روپے خرچ ہوں گے جن میں سے 35 ارب صرف صحت کارڈ پلس اسکیم کیلئے مختص ہیں تاکہ دیگر بیماریوں کے علاؤہ دل، جگر، گردے کے جان لیوا امراض کا علاج بھی ایک غریب شہری باعزت طریقے سے وی آئی پی انداز میں کرا سکے۔
دوسری جانب نوجوانوں کیلئے اس بجٹ میں خوشخبری یہ ہے کہ خود روزگار اسکیم کیلئے 2 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں دو گنا اضافہ ہے۔ اس کا مقصد تعلیم یافتہ مگر بیروزگار نوجوانوں کو ہنر کی بنیاد پر کاروبار کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ مطلب یہ کہ وہ نوجوان جو ہاتھوں میں ڈگریاں لیئے نوکری کیلئے دروازے پر دروازے کھٹکھٹا رہے، اب خود آجر بن کر سینکڑوں دیگر ہنرمندوں کے روزگار کا وسیلہ بن سکتے ہیں۔
اس بجٹ میں شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ، پولیس اور امن و امان کیلئے 158 ارب، مواصلات و تعمیرات کیلئے 123 ارب اور زرعی شعبے کیلئے 17 ارب روپے رکھے گئے ہیں تاکہ معیشت کا پہیہ ہر کونے میں گھومتا رہے۔ کھیلوں اور نوجوانوں کی سرگرمیوں کیلئے بھی 11.6 ارب روپے کا بندوبست کیا گیا ہے کیونکہ صحت مند معاشرہ صرف پیٹ پوجا سے نہیں بلکہ سرگرم نوجوانوں سے بنتا ہے۔
اب آئیں سیاحت کی طرف جو خیبرپختونخوا کا نہ صرف سب سے خوبصورت چہرہ ہے بلکہ ممکنہ طور پر سب سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والا شعبہ بھی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ سیاحت کو اس بار بجٹ میں سنجیدہ ترجیح دی گئی ہے اور اس کیلئے چھ ارب تیس کروڑ روپے مختص کیئے گئے ہیں تاکہ نئے سیاحتی مقامات کی نشاندہی، سہولیات میں اضافہ اور مقامی معیشت کا فروغ یقینی بنایا جا سکے۔ اس میں انفراسٹرکچر کی بہتری، گلیات، سوات، دیر، چترال اور ضم اضلاع میں سیاحتی زونز کی ترقی شامل ہے۔ یہ وہ قدم ہے جو نہ صرف مقامی افراد کے روزگار کا ضامن بنے گا بلکہ ملکی و غیرملکی سیاحوں کیلئے کشش کا باعث بھی بنے گا۔
ضم شدہ اضلاع کو بھی اس بجٹ میں بھلایا نہیں گیا۔ تیز ترین ترقیاتی پروگرام (اے آئی پی) کے تحت ان تمام اضلاع کیلئے 92 ارب روپے اور اضافی سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) کی وساطت سے تقریباً چالیس ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ یہ فنڈز ان پسماندہ علاقوں میں بنیادی ڈھانچے، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کیلئے مختص ہیں تاکہ متوازن تعمیر و ترقی کا سفر پورے صوبہ میں جاری و ساری رہے۔
بجٹ میں الیکٹرک گاڑیوں پر رجسٹریشن فیس اور ٹوکن ٹیکس کی چھوٹ، فاٹا و پاٹا کے علاقوں کیلئے ٹیکسوں میں نرمی اور کم آمدنی والے ہنرمندوں کیلئے پروفیشنل ٹیکس معافی جیسے اقدامات یہ ثابت کرتے ہیں کہ حکومت صرف اعداد و شمار کی جنگ نہیں لڑ رہی بلکہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر فیصلے کر رہی ہے۔
البتہ ایک پہلو ایسا ہے جس پر سرکار کو ایک نظرِ کرم ڈالنی چاہیئے وہ ہے سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی تنخواہوں میں اضافہ۔ ان کا گلہ ہے کہ وفاق نے جو اضافہ تجویز کیا، اس سے بھی کم اضافہ صوبائی بجٹ میں رکھا گیا جس پر ملازمین کی نمائندہ تنظیم اگیگا بجا طور پر سراپا التجا ہے۔ حکومت کو اس جانب خصوصی توجہ دینی چاہیئے کیونکہ یہی طبقہ نظامِ حکومت کو اپنے کندھوں پر اٹھائے آگے چل رہا ہے۔ اسی طرح وفاق سے بھی درخواست ہے کہ پن بجلی منافع، این ایف سی ایوارڈ، ٹوبیکو سیس اور ضم اضلاع کے طے شدہ محاصل کی صوبے کو باقاعدگی سے ادائیگی یقینی بنائے تاکہ عوامی سطح پر اچھا پیغام جائے اور خوشگوار تعلقات کو فروغ ملے۔
بحیثیت مجموعی خیبرپختونخوا کا بجٹ ایک خاموش انقلاب ہے، وہ بھی بلند بانگ مگر کھوکھلے نعروں، جھوٹے بینرز اور مبالغہ آمیز اشتہارات کے بغیر۔ یہ بجٹ صرف اعداد و شمار کا گورکھ دھندا نہیں بلکہ کرپشن سے پاک حقیقت پسندانہ، خودداری، شفافیت اور عوام دوستی کا بیانیہ ہے۔ وہ بیانیہ جو پاکستان جیسے ملک کو اس وقت سب سے زیادہ درکار ہے اور جو باقی حکومتوں کیلئے ایک آئینہ بھی ہے اور مشعلِ راہ بھی۔ اسی طرح بجٹ دستاویزات کا ہر صفحہ اس بات کا گواہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی قیادت محض حکومتی ذمہ داری نہیں بلکہ تاریخی شعور کے ساتھ یہ بھی جانتی ہے کہ ایک ایسے خطے میں حکومت کرنا جہاں وسائل پر دوسروں کی اجارہ داری ہو، جہاں معاشی بہاؤ روک دیا گیا ہو اور جہاں سیکیورٹی چیلنجز روزمرہ کا معمول ہوں، وہاں ترقی صرف مالی دانائی سے نہیں بلکہ عزم، جرات اور تدبر سے ممکن ہے۔ یہی وہ خوبی ہے جو اس بجٹ کو محض مالی گوشوارہ نہیں بلکہ ایک عوامی میثاق بناتی ہے یعنی غربت سے آزادی، خود انحصاری اور باوقار زندگی کی طرف ایک شاندار سفر کا آغاز۔