واشنگٹن: سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے 30 ہزار سے 40 ہزار سال قبل منجمد ہوجانے والے کیڑوں یا راؤنڈ وارمز کو ایک بار زندگی کی جانب لانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
نیماٹوڈ یا راؤنڈ وارمز نامی ان کیڑوں میں سے ایک کو ایک کھدائی کے دوران سو فٹ گہرائی سے جمع کیے گئے زمین کے نمونوں میں دریافت کیا گیا تھا جو کہ 32 ہزار سال قدیم ثابت ہوا۔
دوسرے نیاٹوڈ کی عمر 41 ہزار 700 سال کے قریب ہوئی جسے زمین کی سطح سے گیارہ فٹ کی گہرائی میں دریافت کیا گیا۔
ان نمونوں کو ایک لیبارٹری میں منفی 4 ڈگری فارن ہائیٹ درجہ حرارت میں محفوظ کیا گیا تھا، جسے بعد میں 68 ڈگری تک بڑھا کر ان کے ارگرد غذا رکھ دی گئی۔کئی ہفتوں کے بعد ان کیڑوں میں زندگی کے آثار پیدا ہوگئے اور انہوں نے ہلنا جلنا اور کھانا شروع کردیا۔
محققین نے اس حوالے سے بتایا ہمارے ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ اس طرح کے جاندار طویل عرصے تک زندگی کی بقا میں کامیاب رہتے ہیں۔واضح رہے کہ تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ کیڑے درحقیقت مرے نہیں تھے بلکہ برف میں محفوظ ہوگئے تھے۔
چند دیگر تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ نیماٹوڈ کی کچھ اقسام انتہائی سخت حالات یا ماحول جیسے ساڑھے 25 سال تک منجمد درجہ حرارت اور 39 سال خشک سالی میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔
مگر اس تحقیق سے پہلی بار معلوم ہوا کہ یہ کیڑے انتہائی طویل وقت یا ہزاروں سال تک بھی اپنی بقامیں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
تاہم محققین کا کہنا تھا کہ ابھی یہ امکان بھی ہے کہ یہ کیڑے وہ نہ ہو جو نظر آتے ہیں، ان کے بقول ایسے امکانات موجود ہیں کہ زمانہ قدیم کے نمونوں میں آلودگی یا ملاوٹ کے اثرات موجودہ دور کے کیڑوں پر مرتب ہوئے ہوں۔
ویسے ان کا کہنا تھا کہ طریقہ کار کے دوران ہر ممکن احتیاط کو پیش نظر رکھا گیا تھا اور جانا گیا تھا کہ عام طور پر سیزن میں استعمال ہونے والی کیڑے مار ادویات اتنی گہرائی تک نہیں پہنچ پاتیں جہاں ان نیماٹوڈز کو دریافت کیا گیا۔
اگر یہ نتائج درست ثابت ہوگئے تو اس سے سائنسدانوں کو یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ آخر کچھ جاندار بہت زیادہ درجہ حرارت میں کیسے بچ پاتے ہیں اور ان نیماٹوڈ میں وقت کے ساتھ کیا تبدیلیاں آئیں۔
اس تحقیق کے نتائج سائنسی جریدے Doklady Biological Sciencesمیں شائع ہوئے۔