متحدہ عرب امارات کے شہر امارات میں امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے معاملے پر افغان طالبان نے محتاط انداز اپنایا ہے تاہم امارات میں موجود افغان وفد اور امریکی ایلچی زلمے خلیل ذار کی جانب سے مذاکرات کو کچھ الگ رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ بدھ کو سامنےآنے والی معلومات کے مطابق کابل انتظامیہ اور امریکہ کی جانب سے ان مذاکرات کو طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ جبکہ طالبان کا اصرار ہے کہ مذاکرات صرف امریکہ اور طالبان کے درمیان ہو رہے ہیں۔
افغان طالبان نے برطانوی خبر رساں ادارے کی جانب سے مبینہ طور پر پھیلائے گئے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ امریکہ اور طالبان انتخابات یا سیز فائر کے امور پر کوئی بات کر رہے ہیں۔
زلمے خلیل زاد اور طالبان کے وفد کے درمیان متحدہ عرب امارات کی میزبانی میں تین روزہ مذاکرات پیر کے روز شروع ہوئے تھے۔ ان مذاکرات میں پاکستان اور سعودی عرب کے نمائندے بھی موجود ہیں۔
بدھ کو ابو ظہبی میں افغان حکومت کے وفد نے طالبان سے ملنے کی کوششیں کیں جبکہ بدھ کو ہی زلمے خلیل زاد نے ٹوئٹر پر بیان میں کہاکہ امارات میں انہوں نے ’’انٹر افغان‘‘ (افغانوں کے باہمی) مذاکرات کے لیے مفید ملاقاتیں کی ہیں۔
تاہم طالبان کا موقف رہا ہے کہ وہ کابل انتطامیہ سے نہیں بلکہ صرف امریکہ سے ہی بات کر سکتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق بدھ کو طالبان نے کابل انتظامیہ کے وفد کے ساتھ ملاقات سے انکار کردیا۔ کابل میں افغان حکومت کے ایک ترجمان امید مثیم نے تصدیق کی کہ طالبان نے ملاقات سے انکار کیا ہے تاہم ترجمان کا کہنا تھا کہ ملاقات کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
افغان طالبان نے اپنے ایک بیان میں اس تاثر کو بھی مسترد کرنے کی کوشش کی ہے کہ ابوظہبی مذاکرات میں شراکت اقتدار کی کوئی بات ہو رہی ہے۔ بیان میں کہا گیا، ’’ابوظبی شہر میں امریکی نمائندوں کے ساتھ جارحیت اور امریکی مداخلت کو ختم کرنے کے حوالے سے گفتگو جاری ہے۔ وہاں عبوری حکومت، سیزفائر، الیکشن اور دیگر داخلی موضوعات کے بارے میں بات چیت نہیں ہورہی ہے، بلکہ امریکی جارحیت بحث کا محور ہے۔‘‘