لاہور: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اسپتالوں کو چلانا میرا یا عدالتوں کا کام نہیں تھا لیکن وہاں پر غلطیاں ہو رہی تھیں، اداروں کی غلطیوں کا سدباب کرنا عدلیہ کی قانونی ذمہ داری ہے۔
سروسز انسٹی ٹیویٹ آف میڈیکل سائنسز کے کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ لوگوں کے مسائل کی وجہ سے میں جدوجہدکررہا ہوں،پیشہ ورانہ زندگی میں خلوص نیت سے ذمے داری نبھانااصل خدمت ہے،اپنی پوری زندگی میں انصاف کے حصول کےلئے کام کیا۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ہر شخص کو زندہ رہنے کا حق ہے اور طب کا شعبہ سب سے زیادہ ذمہ دار ہے، لہذا ڈاکٹر حضرات کو چاہیے کہ اپنے حلف کی صحیح پاسداری کریں۔ساتھ ہی چیف جسٹس نے واضح کیا کہ اسپتالوں کو چلانا میرا یا عدالتوں کا کام نہیں تھا لیکن وہاں پر غلطیاں ہو رہی تھیں، اداروں کی غلطیوں کا سدباب کرنا عدلیہ کی قانونی ذمہ داری ہے۔
چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثارنے کہا کہ میری زندگی کا مقصد ہمیشہ اپنے پیشے سے مخلص رہنا ہے ، میرا امتحان شروع ہو چکا ہے ، اس کا نتیجہ میری ریٹائرمنٹ پرنکلے گا ،بلوچستان گیا تو پتاچلا سب سے بڑے اسپتال میں آئی سی یو نہیں تھا،انہوں نے کہا کہ 2 ہزارپیرامیڈیکس کچھ روزسے ہڑتال پرتھے، مجھے مشورہ دیاگیابلوچستان نہ جائیں پیرامیڈیکس ہڑتال پرہیں،میں بلوچستان گیااورپیرامیڈیکس کاایک ایک جائزمطالبہ پوراکیا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ مجھے ملک کے ہرکالج ، ہرہسپتال کےساتھ محبت ہے ،میری محبت یکطرفہ نہیں، دوطرفہ ہے ،پنجاب،سندھ، بلوچستان، کے پی کے ہرعلاقے میں موجود تعلیمی ادارے، ہسپتالوں سے مجھے محبت ہے ،میرامشن تھاکہ صحت کے شعبے میں بہتری لانے کیلئے اقدامات کروں،پرائیویٹ کالجزمیں ڈاکٹرزپیدانہیں کئے جارہے،پرائیویٹ کالجزسے پڑھ کرآنے والے ڈاکٹرزبلڈپریشرچیک نہیں کرسکتے،انہوںنے کہا کہ پرائیویٹ کالجزمیں فیس کی مدمیں کروڑوں روپے لئے جارہے ہیں۔