بنگلہ دیش کے انتخابات دھاندلی اور خونریزی سے آلودہ- 17 ہلاک

بنگلہ دیش میں عام انتخابات کے لئے ووٹنگ اتوار کو ہوئی تاہم اپوزیشن نے دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے الیکشن مسترد کردیئے جب کہ پرتشدد واقعات میں دو سیاسی رہنمائوں سمیت کم ازکم 17 افرادہلاک ہوگئے ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات مسترد کردیئے ہیں۔ اپوزیشن اتحاد کے ترجمان کمال حسین نے پریس کانفرنس میں کہا کہ غیرجانبدار حکومت کی نگرانی میں دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔

سہلٹ اور بوگرہ سمیت ملک کے کئی اضلاع کے پولنگ اسٹیشنوں پر حکمران عوامی لیگ اور اپوزیشن بی این پی کے کارکنوں کے تصادم مسلح تصادم کے واقعات پیش آئے ہیں جن میں ہلاکتیں ہوئیں۔ کئی جگہ پولنگ معطل رہی۔ بیلٹ باکسز پہلے سے بھرے ہوئے تھے۔ پولیس ہلاک ہونے والے متعدد افراد کو عوامی لیگ کا کارکن بنا رہی ہے جبکہ اطلاعات کے مطابق اپوزیشن بی این پی کے مارے گئے کارکنوں کی ہلاکت کی تصدیق ان کی سیاسی وابستگی بتائے بغیر کی جارہی ہے۔

پولنگ مکمل ہونے سے پہلے ہی کم ازکم 26 امیدوار وں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ ان میں اپوزیشن اتحادی جماعت جاتیا پارٹی کے 25 امیدوار شامل ہیں۔

پولنگ صبح 8 بجے شروع ہوئی جو 4 بجے مقررہ وقت پر ختم ہوئی۔

ان انتخابات میں جماعت اسلامی کو حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی لہٰذا اس کے امیدواروں نے بی این پی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا۔ اپوزیشن اتحاد کی ایک اوراہم جماعت جاتیا پارٹی تھی۔ دوسری جانب حکمران عوامی لیگ کے ساتھ بوجو لیگ ہے۔

انتخابی تشدد کے واقعات کے بعد ملک میں بعض ٹی وی چینلز کی نشریات روک دی گئیں۔ موبائل انٹرنیٹ بند کردیا گیا تاکہ دھاندلی کی خبریں نہ پھیل سکیں۔ موبائل انٹرنیٹ پولنگ مکمل ہونے کے کئی گھنٹے بعد کھولا گیا۔

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے 17 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ بنگلہ دیش کے انگریزی  اخبار دی انڈی پینڈینٹ نے درج ذیل ہلاکتوں کی تفصیل فراہم کی۔

  1. پولیس کی مدد کیلئے تعینات کی جانے والی رضا کار فورس انصار کا اہلکار نور النبی نواکھلی میں پولنگ اسٹیشن پر شر پسندوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوا۔
  2. رنگ متی میں حکمراں جماعت عوامی لیگ اور اپوزیشن بی این پی کے کارکنوں میں تصادم ہوا جس کے بعد بی این پی کے حامیوں نے حملہ کرکے عوامی لیگ کی اتحادی جوبولیگ کے رہنما بشیر الدیں کو ہلاک کردیا۔
  3. چتو گرام میں عوامی لیگ کے کارکنوں کے حملے میں بی این پی کی اتحادی جاتیا لیگ کاایک کارکن کبیر ہلاک ہو گیا۔
  4. کمیلہ میں عوامی لیگ اور بی این پی کے تصادم میں ایک دیہاتی بچو میاں مارا گیا۔
  5. چندیاں پورا میں 35 سالہ رکشہ ڈرائیور مجیب الرحمان اور
  6. راج شاہی میں تصادم کے دوران عوامی لیگ کے مقامی مرحوم رہنما کا بیٹا معراج الاسلام مارا گیا۔
  7. راج شاہی میں ہی پولنگ اسٹیشن پر قبضے کی لڑائی میں 40 سالہ مدثر علی مارا گیا۔
  8. راج شاہی میں ہی بی این پی کا ایک امیدوار بھی قتل ہوا۔
  9. تنگیل میں بی این پی کے 65 سالہ کارکن عبدالعزیز کی لاش برآمد ہوئی۔ انہیں پچھلی شب اغوا کیا گیا تھا۔
  10. نٹور میں عوامی لیگ کے حامی حسین علی کو اس کے نوجوان عزیز نے ووٹ دینے کے جھگڑے پر چاقو گھونپ کر مار دیا۔
  11. پولیس کے مطابق نرسنگڑی میں عوامی لیگ کا کارکن ملوں میان پولنگ اسٹیشن پر مارا گیا۔
  12. پولیس نے بوگرہ میں عوامی لیگ کے کارکن عزیز الاسلام کے قتل کی بھی اطلاع دی ہے۔ بوگرہ میں اے ین پی اور بی این پی کے کارکنوں میں پولنگ اسٹیشن پر تصادم ہوا
  13. سہلٹ کی تحصل صدر میں اے این پی اور بی این پی کے درمیان مسلح تصادم کئی گھنٹے جاری رہا جس میں 19 سالہ اسرائیل ہلاک ہوگیا۔
  14. کاکس بازار میں عبداللہ الفاروق تصادم میں مارا گیا۔

تصادم کے بیشتر واقعات اس وقت ہوئے جب عوامی لیگ کی جانب سے ووٹوں سے بھرے بیلٹ باکسز پولنگ اسٹیشنوں پر رکھنے کی کوشش کی گئی۔ بی بی سی کے ایک رپورٹر نے بھی ووٹوں سے بھرے بیلٹ باکسز دیکھنے کی تصدیق کی ہے۔

جاتیا لیگ کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر کمال حسین نے صبح سویرے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ڈھاکہ کے مضافات میں پولنگ باکسز بھرے ہوئے ملے ہیں۔ ڈاکٹر حسین کا کہنا تھا کہ 1971 میں لاکھوں افراد نے ووٹنگ کے حق کے لیے جانیں قربان کیں لیکن یہ حق اب بھی نہیں مل رہا۔

بی این پی نے بھی سنگین دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ بی این پی کے سینئر جوائنٹ جنرل سیکرٹری کبیر رضوی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اب تک یکطرفہ انتخابات ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت دھاندلی کے ذریعے من مانے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

دوسری جانب بنگلہ دیش کے چیف الیکشن کمشنر نے دعویٰ کیا ہے کہ انتخابات پرامن ہو رہے ہیں۔

وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جمہوریت پسند قوتیں ہی جیتں گی۔

تشدد کے واقعات اور دھاندلی کے الزامات کے باوجود پولنگ اسٹیشنوں پر بھٹو کی لمبی قطاریں دیکھی گئیں۔