افغان طالبان نے ایک غیرمعمولی دورے پر تہران پہنچ کر ایرانی حکام سے اہم مذاکرات کیے ہیں۔
ایرانی وزارت خارجہ نے اس دورے اور مذاکرات کی تصدیق کی ہے۔ اس سے پہلے ایران کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کابل میں اشرف غنی انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کی تھی۔
تازہ پیشرفت نے ایران کو افغان امن عمل کا ایک اہم کردار بنا دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق افغان طالبان اور ایرانی حکومت کے درمیان گذشتہ 17 برسوں کے دوران درجنوں مرتبہ رابطے ہوئے اور پس پردہ بات چیت بھی ہوئی تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان وفد نے باقاعدہ دورہ کیا جس کی اعلیٰ سرکاری سطح سے تصدیق بھی کی جا رہی ہے۔
ایران کی وزرت خارجہ کے ترجمان بہرام غسیمی نے پیر کے روز بتایا کہ طالبان کا وفد اتوار کو تہران پہنچا جس نے ایرانی نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی سے مذاکرات کیے۔
ترجمان کے مطابق مذاکرات کے دوران ’’افغانستان میں امن لانے کیلئے سیکورٹی امور‘‘ پر تبادلہ خیال ہوا۔
ایرانی ترجمان کا کہنا ہے کہ کابل حکومت کو بھی اس دورے کا علم تھا۔
افغانستان کے پشتو ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ طالبان وفد کی قیادت قطر دفتر کے سربراہ شیر محمد عباس ستنکزئی کر رہے تھے جبکہ یہ وفد اتوار سے پہلے پہنچا تھا اور چند روز افغانستان میں ہی رہا۔
اس سے قبل ایران کی قومی سلامتی کونسل کے عہدیدار علی شام خانی نے کابل میں افغان حکام سے مذاکرات کیے تھے۔
اطلاعات کے مطابق ایران کے طالبان کے رابطوں کو امریکی حمایت بھی حاصل ہے۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے ایک رپورٹ میں ایرانی کردار کی حمایت کی تھی۔
افغان طالبان نے فوری طور پر اس دورے کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
افغان طالبان نے اس سے قبل ابوظہبی میں امریکہ سے مذاکرات کیے تھے۔ تاہم طالبان کابل انتظامیہ کے ساتھ بیٹھنے سے انکاری ہیں۔
افغان ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت طالبان اور کابل انتظامیہ کے درمیان بات چیت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔