جنوبی کوریا میں ایک سابق چیف جسٹس کو گرفتار کرلیا گیا ہے جن پرالزام ہے کہ انہوں ںے اپنے عہدے کافائدہ اٹھاتے ہوئے ماتحت عدالتوں پر غلط دبائو ڈالا اور انہیں مقدمات کو التوا میں رکھنے پر مجبور کیا۔
یہ مقدمات جاپانی کمپنیوں کے خلاف ہیں جو جنوبی کوریا کے شہریوں نے اپنی عدالتوں میں دائر کر رکھے ہیں۔ کوریا پر جاپان کے قبضے کے دوران ہونے والی ناانصافیوں پر شہری جاپانی کمپنیوں سے ہرجانہ طلب کر رہے ہیں۔
جسٹس ینگ سنگ تے (Yang Sung-tae) 2011 سے 2017 تک جنوبی کوریا کے چیف جسٹس تھے اور ان پر الزام ہے کہ اس وقت کی حکومت کے ایما پر انہوں نے جاپانی کمپنیوں کے خلاف مقدمات پر پیشرفت رکوانے کے لیے اثرو رسوخ استعمال کیا۔
جاپان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی یونہپ کے مطابق جسٹس سنگ تے پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے جاپانی کمپنیوں کی نمائندگی کرنے والے وکلا سے ملاقات کی تھی تاکہ انہیں مقدمات جیتنے میں مدد دے سکیں۔
جسٹس ینگ سنگ تے کے وارنٹ گرفتاری سیول سنٹرل ڈسٹرکٹ کی ماتحت عدالت نے جاری کیے جس پر انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ ان کے خلاف 40 الزامات عائد ہوسکتے ہیں۔
جنوبی کوریا میں 12 سے زائد ایسے مقدمات اب بھی زیر سماعت ہیں جن میں درخواست گزاروں نے الزام عائد کیا کہ 1910 سے 1945 تک کوریا پر قبضے کے دوران جاپانی کمپنیوں نے ان سے جبری مشقت لی۔
جاپان کا مؤقف ہے کہ یہ مقدمات 1965 کے معاہدے کی خلاف ورزی ہیں۔
تاہم گذشتہ اکتوبر میں کوریا کی سپریم کورٹ نے جاپان کی نیپون اسٹیل کو حکم دیا تھا کہ وہ جبری مشقت پر کورین کارکنوں کو ہرجانہ ادا کرے۔ اسے طرح کے فیصلے دیگر کمپنیوں کے خلاف بھی دیئے گئے۔
اس کے بعد جاپان اور جنوبی کوریا کے سفارتی تعلقات میں سرد مہری آگئی ہے۔