ساہیوال میں ‘اریبہ کو دوبارہ گاڑی میں بٹھا کر گولیاں ماری گئیں’

سانحہ ساہیوال میں بچ جانے والے بچے عمیرنے بتایا ہے کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں نے پہلے ہم چاروں بہن بھائیوں کو گاڑی سے باہر نکالا تھا اور پھر تھوڑی دیر بعد اس کی 13سالہ بڑی بہن اریبہ کو گاڑی میں بٹھا کر گولیاں مارکر قتل کیا گیا۔

نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے عمیرنے انکشاف کیا کہ سانحہ کے وقت سی ٹی ڈی اہلکاروں نے فائرنگ کرنے کے بعد کار رکنے پر سب سے پہلے ہم چاروں بہن بھائیوں کو گاڑی سے باہر نکالا تھا اور پھر تھوڑی دیر بعد 13سالہ بڑی بہن اریبہ کو دوبارہ گاڑی میں بٹھا کر گولیاں ماری تھیں۔

زرائع کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کو خدشہ تھا کہ اریبہ ان کے جعلی مقابلے کے کیس میں گواہ بن سکتی ہے جس کے باعث اس کے عینی شاہد ہونے کی وجہ سے اسے بعد میں قتل کیا گیا۔

یاد رہے کہ کچھ دن قبل پنجاب پولیس کے کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ نے ساہیوال میں مبینہ طورپردہشت گرد کی خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے ایک کارپر فائرنگ کرکے چار افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا ، قتل ہونے والوں میں کار ڈرائیور ،میاں بیوی اور ان کی تیرہ سالہ بیٹی شامل ہے جبکہ تین بچے اس سانحہ میں بچ گئے تھے۔

سی ٹی ڈی پنجاب نے واقعہ کی وڈیوزسوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد یکے بعد دیگرے متعدد متضاد بیانات کے پریس ریلیز جاری کئے تھے جس کےباعث پولیس مقابلے کے مشکوک ہونے کے خدشات بڑھ گئےجس کے بعدوفاقی اورصوبائی حکومتوں کو سامنے آکر تحقیقات کے حکم کے ساتھ سانحہ میں ملوث ملزمان کومعطل کرناپڑا۔

میڈیا پرجعلی مقابلے کے شور پر تحقیقات اوربیانات کاسلسلہ شروع ہواتو حکومت بھی بوکھلا کر بیانات دیتی رہی جس کے بعد جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس نے اپنی ابتدائی رپورٹ پنجاب حکومت کو دیکر مزید تحقیقات کیلئے وقت مانگ لیا۔

سانحہ میں بچ جانے والے عمیر نے پہلے دن ہی بتادیا تھا کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کی فائرنگ کے بعد جب ان کی کار رک گئی تھی تو اس کے والد نے سی ٹی ڈی اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ میرے پاس جو جمع پونجی اور جو مال و اسباب ہے وہ لے لو لیکن ہمیں زندہ چھوڑ دو لیکن ان درندہ صفت اہلکاروںنے اس کے والد کی کوئی بات نہیں سنی اور گاڑی پر فائرنگ کردی جس سے اس کے والدین اوربہن ہلاک ہوگئے۔

گذشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے عمیر نے یہ تازہ انکشاف کیا کہ اس کی بڑی بہن اریبہ جس کی عمر تیرہ سال تھی اسے سی ٹی ڈی اہلکاروں نے تینوں بچوں کےساتھ گاڑی سے باہر نکال لیاتھااور کچھ دیر بعد دوبارہ اسے گاڑی میں بٹھاکر فائرنگ کرکے قتل کیا گیا ۔

عمیر کے بیان کےبعدایک اہم زرائع کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کو خدشہ تھا کہ اریبہ ان کے جعلی مقابلے کے کیس میں چشم دید گواہ بن سکتی ہے جس کے باعث عینی شاہد ہونے کی وجہ سے اسے بعد میں قتل کیا گیا۔

عوام کو اب اس بات کا انتظار ہے کہ ننھے عمیر کے اس دردناک انکشاف کےبعد وفاقی اورصوبائی حکومت سمیت معاملے کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کیا کرتی ہیں اور اس سنگین انکشاف کے بعد کوئی بڑا اور اہم فیصلہ کرکے انصاف کا بول بالا کیا جاتا ہے یا پھر ہمیشہ کی طرح معاملے کو طول دیکر پہلے مٹی ڈال جائے گی اور پھر اسے داخل دفترکردیا جائے۔