زلمے خلیل زاد(فائل فوٹو)
زلمے خلیل زاد(فائل فوٹو)

افغانستان سے انخلا کیلئے طالبان کے ساتھ فریم ورک پر اتفاق ہوگیا-امریکی ایلچی

افغانستان پر امریکی صدر کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ قطر مذاکرات میں طالبان کے ساتھ ایک فریم ورک پر اتفاق ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں امریکہ افغانستان سے فوجیں نکال سکتا ہے۔

زلمے خلیل زاد نے یہ بات امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو میں کہی ہے جو پیر کو شائع ہوا۔ امریکی ایلچی ان دنوں افغان صدر اشرف غنی کو اعتماد میں لینے کیلئے کابل کے دورے پر ہیں۔

اخبار کے مطابق زلمے خلیل زاد نے کہا،’’ ہم نے ایک فریم ورک کا ڈرافٹ تیار کیا ہے جسے معاہدے کی شکل دینے کے لیے جزئیات طے کرنا باقی ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا، ’’ہمارے اطمینان کے لیے طالبان نے وعدہ کیا ہے وہ افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں یا افراد کا پلیٹ فارم بننے سے روکنے کیلئے ہر ممکن اقدام کریں گے۔‘‘

نیویارک ٹائمز کے مطابق معاملے سے باخبر ایک امریکی عہدیدار نے بتایا کہ  افغان قوتوں کے درمیان مذاکرات اور جنگ بندی امریکہ کی شرائط میں شامل ہے اور طالبان نے ان دو باتوں پر امریکی قیادت سے مشاورت کے لیے وقت مانگا ہے۔

اخبار کا کہنا ہے کہ زلمے خلیل زاد تاحال طالبان کو اس بات پر قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ افغان حکومت سے مذاکرات کریں۔ اس سلسلے میں وہ خطے کے ممالک کی مدد بھی لے رہے ہیں۔

امریکی اخبار نے خیال ظاہر کیا کہ کابل حکومت سے مذاکرات اور جنگ بندی کی شرائط سے معاہدہ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔ اخبار کے مطابق ایک مغربی سفارتکار کی تجویز ہے کہ معاہدے کو اس وقت تک ’’منجمد‘‘ کردیا جائے جب تک طالبان ان دو شرائط پر راضی نہیں ہوجاتے۔

معاہدے کا مسودہ زیرگردش

نیویارک ٹائمز کے مطابق افغان حکام کو تشویش ہے کہ انہیں امریکہ نے مذاکرات سے ایک طرف کر دیا ہے۔ افغان حکام نے اخبار کو بتایا کہ صدر اشرف غنی کو خدشہ ہے کہ امریکہ افغان حکام کو فریق بنائے بغیر اہم معاہدے کر لے گا جن میں افغانستان کی عبوری حکومت پر معاہدہ بھی شامل ہوسکتا ہے۔

امریکی اخبار نے لکھا کہ اشرف غنی کی تشویش کا سبب یہ بھی ہے کہ ایک سابق امریکی سفارتکار  لارلر ملر کی جانب سے طالبان کے ساتھ معاہدے کا مسودہ کابل میں گردش کر رہا ہے۔ مذکورہ سفارتکار نے زلمے خلیل زاد کے تقرر سے پہلے طالبان کے ساتھ کئی ملاقاتیں کی تھیں۔ لارلر ملر نے معاہدے کا یہ مسودہ رینڈ کارپوریشن کے لیے لکھا تھا جس کا مقصد ’’انتہائی حد تک حقیقت پسندانہ‘‘ امن معاہدے کی ممکنہ شکل سامنے لانا تھا۔ اس مسودے میں ایک ایسی عبوری حکومت کا قیام بھی شامل ہے جس کا طالبان حصہ ہوں گے۔

اشرف غنی گذشتہ ہفتے کہہ چکے ہیں کہ افغان عوام عبوری حکومت قبول نہیں کریں گے۔

نیویارک ٹائمز کو انٹرویو میں زلمے خلیل زاد نے کہاکہ انہوں نے طالبان کے ساتھ عبوری حکومت پر کوئی بات نہیں کی بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ طالبان اور افغان فریقین براہ راست طے کریں۔