5 اگست کی تاریخ علم نجوم کے مطابق ہندوؤں کے لیے نیک شگون ہے۔فائل فوٹو
5 اگست کی تاریخ علم نجوم کے مطابق ہندوؤں کے لیے نیک شگون ہے۔فائل فوٹو

بابری مسجد تنازع پرثالثی۔بی جے پی اور سنگھ پریوار کے منہ پرطمانچہ

بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد اور رام مندر تنازع کو ثالثی سے حل کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایک تین رکنی پینل تشکیل دے دیا جو 8 ہفتے میں مصالحت کا عمل مکمل کرے گا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے بی جے پی اور سنگھ پریوار کو ایک زوردار طمانچہ لگا ہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس رانجن گوگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اپنے حکم میں بابری مسجد تنازع کے حل کے لیے سابق جج جسٹس (ر) خلیف اللہ کی سربراہی میں تین رکنی ثالثی پینل بنا دیا جو ایک ہفتے میں اپنے کام کا آغاز کرے گا۔

ثالثی پینل کے دیگر دو ارکان میں شری شری روی شنکر اور سینئر وکیل شری رام پانچو شامل ہیں۔

عدالت نے حکم دیا کہ ثالثی پینل بابری مسجد اور رام مندر کا تنازع 8 ہفتے میں حل کرے اور ثالثی کا عمل اترپردیش کے شہر فیض آباد میں ہوگا۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ثالثی کا عمل خفیہ طریقے سے ہوگا جس کی میڈیا کو رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہوگی اور تمام معاملے کی نگرانی اعلیٰ عدالت خود کرے گی۔

ثالثی پینل کے چیئرمین جسٹس (ر) خلیف اللہ کا کہنا ہے کہ مسئلے کے حل کے لیے تمام صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں گی اور معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

پولیس کمشنر شمشیر خان پٹھان نے کہا کہ اس فیصلہ سے بی جے پی اور سنگھ پریوار کو ایک زوردار طمانچہ لگا۔

انہوں نے کہا، ”اس فیصلے کے بعد بی جے پی اور سنگھ پریوار کے چہرے اتر گئے کیونکہ 3 رکنی پینل میں کسی بھی سیاسی لیڈر یا سنگھ پریوار کے کسی بھی رکن کو رکھا نہیں گیا اور کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اس مصلحت کی کوشش کی رپورٹنگ کوئی بھی پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا شائع نہیں کرے گا

ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے بی جے پی اور سنگھ پریوار کی بولتی بند ہو گئی اور آنے والے لوک سبھا کے الیکشن کے دوران بی جے پی اور سنگھ پریوار رام مندر کا ایشو ووٹ  لینے کیلیے  استعمال نہیں کر سکیں گے،اس کی وجہ سے بی جے پی اور سنگھ پریوار میں مایوسی کا ماحول چھا گیا ہے۔

بابری مسجد/ رام مندر کا پس منظر

1528 میں مغل دور حکومت میں بھارت کے موجودہ شہر آیودھا میں بابری مسجد تعمیر کی گئی جس کے حوالے سے ہندو دعویٰ کرتے ہوئے اس مقام پر رام پیدا ہوئے تھے اور یہاں مسجد سے قبل مندر تھا۔

برصغیر کی تقسیم تک معاملہ یوں ہی رہا، اس دوران بابری مسجد کے مسئلے پر ہندو مسلم تنازعات ہوتے رہے اور تاج برطانیہ نے مسئلے کے حل کے لیے مسجد کے اندرونی حصے کو مسلمانوں اور بیرونی حصے کو ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے معاملے کو دبا دیا۔

تقسیم ہندوستان کے بعد حکومت نے مسلم ہندو فسادات کے باعث مسجد کو متنازع جگہ قرار دیتے ہوئے دروازوں کو تالے لگا دیے، جس کے بعد معاملے کے حل کے لیے کئی مذاکراتی دور ہوئے لیکن آج تک کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔