کرائسٹ چرچ دہشت گردی میں شہید ہونے والوں کے آخری لمحات کے بارے میں لرزہ خیز داستانیں سامنے آرہی ہیں۔ عیسائی دہشت گرد کی گولیوں سے اپنے پیاروں کو بچانے کے لیے لوگوں نے جانیں دیں۔
النور مسجد جہاں سب سے زیادہ قتل عام ہوا، سے زندہ بچنے والے چند ایک افراد میں ایک علی ادیب ہے جس کی جان بچانے کے لیے اس کے والد نے گولیاں اپنے جسم میں روک لیں۔
علی نے بتایا کہ اس کے والد ادیب سمیع آئی سی یو میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ النور مسجد میں دہشت گرد نے چار مرتبہ مرکزی ہال میں گھس کر فائرنگ کی اور زمین پر پڑے لوگوں پر بھی گولیاں برساتا رہا۔ تاہم علی کے والد سمیع ادیب نے اپنے جواں سال بیٹے کو اپنے نیچے چھپا لیا اور دہشت گرد کی گولیاں سمیع کے جسم میں پیوست ہوئیں۔ علی نے بتایا کہ ایک گولی اس کے چہرے کو جلاتی ہوئی گزری لیکن اندر نہیں گئی، وہ ان چند افراد میں سے ایک ہے جنہیں کوئی گولی نہیں لگی ہے۔
النور مسجد میں ہی بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی حسن آرا پروین نے وہیل چیئر کے محتاج اپنے معذور شوہر کو زندہ بچا لیا لیکن خود قربان ہو گئیں۔ حسن آرا کے بارے میں پہلے اطلاعات آئی تھیں کی وہ اپنے شوہر کو تلاش کرنے کےلیے دوبارہ مسجد میں چلی گئی تھیں۔ اب معلوم ہوا ہے کہ 42 سالہ حسن ارا کے شوہر فرید احمد معذور تھے اور وہیل چیئر استعمال کرتے تھے، حسن آرا پروین اسی لیے انہیں ڈھونڈنے واپس گئیں۔
حسن آرا کے بھانجے محفوظ چوہدری نے بتایا کہ ہر جمعہ کی طرح اس جمعہ کو حسن آرا اپنے شوہر کو وہیل چیئر پر مسجد لے کر گئی تھیں، جب فائرنگ کی آواز آئی تو وہ مردوں کے حصے کی طرف بھاگیں اور گولیوں کا نشانہ بن گئیں۔
النور مسجد میں ہی اپنوں کے لیے قربانی کی ایک اور داستان ایبٹ آباد کے نعیم رشید کی ہے۔ نعیم رشید کا جوان سال بیٹا طلحہ بھی اسی مسجد میں موجود تھا اور نعیم اپنے بیٹے اور دیگر نمازیوں کی جانیں بچانے کے لیے دہشت گرد پر جھپٹے تھے تاہم گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہوکر گر گئے اور بعد ازاں شہید ہوگئے۔
اس واقعے میں شہید ہونے والا سب سے کم عمر 3 برس کا مقصود ابراہیم ہے۔ مقصود اپنے والد اور بڑے بھائی کے ساتھ مسجد گیا تھا۔ فائرنگ سے مقصود اور اس کے والد دونوں زخمی ہوئے۔ انہیں اسپتال لے جایا گیا جہاں مقصود نے اپنے باپ کی بانہوں میں دم توڑ دیا۔