نیوزی لینڈ اور بالخصوص کرائسٹ چرچ شہر میں مزید سفید فام دہشت گردوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے جب کہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ گذشتہ برس اکتوبر میں پولیس کو آگاہ کیا گیا تھا کہ شہر میں گورے دہشت گرد اسلحہ جمع کر رہے ہیں۔
اس نئے انکشاف کے بعد مقامی پولیس وضاحتوں پر مجبور ہوگئی ہے۔
نیوزی لینڈ میں سفید فام بالادستی کے دعوے کا پرچار کرنے والی ایک سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ بھی موجود ہے۔
سفید فام دہشت گردوں کی موجودگی کا انکشاف ریڈیو نیوزی لینڈ کے ذریعے ہوا۔ ریڈیو کو فون کرکے ایک اسلحہ بنانے اور بیچنے والے کاریگر ہیمش بروس نے بتایا کہ شہر میں سفید فام دہشت گردوں کے سرگرم ہونے کے بارے میں انہوں نے گذشتہ برس اکتوبر میں اسلحہ ایکٹ پر ہونے والے ایک اجلاس میں آواز اٹھائی تھی اور پولیس سپرنٹنڈنٹ مائیک میک الریتھ کو بتایا تھا کہ انتہا پسند نظریات رکھنے والے افراد بندوقیں جمع کررہے ہیں اور ان لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
بروس کے بقول یہ افراد ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے مختلف ایونٹس میں بھی شرکت کرتے رہے۔
بروس کا کہنا ہے کہ انہوں نے صاف طور پر بتایا تھا کہ یہ افراد نیو نازی ہیں اور یہ ہر طرح کے اسلحے تک رسائی حاصل کر رہے ہیں، اس میں مشین گن، پستول، سب مشین گن سمیت وہ تمام ہتھیار شامل تھے جو صرف مخصوص لوگوں کو ہی رکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔
اسلحہ ڈیلر کا کہنا تھا کہ وہ خود 80 اور 90 کی دہائی میں سیاسی طور پر سرگرم رہے اور اسکن ہیڈ گروہوں کے افراد کو جانتے ہیں، انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ دوبارہ سرگرم ہو رہے تھے۔
ہیمش بروس کا کہنا ہے کہ ہتھیار حاصل کرنے کے لیے یہ لوگ لائسنس لے رہے تھے اور یہ بات انہوں نے پولیس کو بتائی تھی۔
یاد رہے کہ کرائسٹ چرچ میں دہشت گردی کرنے والے برینٹن ٹیرنٹ نے بھی اپنے چار ہتھیار لائسنس حاصل کرنے کے بعد خریدے تھے۔
نیوزی لینڈ کے مشہور اسلحہ اسٹور ’’گن سٹی‘‘ نے یہ ہتھیار ٹیرنٹ کو بیچنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ رائفلیں پولیس کی تصدیق اور اجازت ناموں کے بعد فروخت کی گئیں۔
گن سٹی کے مالک کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گرد نے زیادہ فائرنگ جس رائفل اے آر 15 سے کی وہ اس نے کہیں اور سے حاصل کی تھی۔
ہتھیاروں کے کاریگر ہیمش بروس کے انکشافات سے اس تاثر کی تصدیق ہوتی ہے کہ دہشت گرد ٹیرنٹ اس حملے میں تنہا نہیں تھا بلکہ اس کے دیگر ساتھی بھی تھے۔ پولیس نے جمعہ کے روز حملے کے بعد ایک عورت سمیت تین افراد کو ٹیرنٹ کا ساتھی ہونے کے شبے میں گرفتار کیا تھا تاہم ایک کو فوری طور پر چھوڑ دیا گیا جب کہ دوسرے مرد اور عورت کے خلاف بھی کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔
نیوزی لینڈ میں سفید فام اسکن ہیڈ گروہ موجود ہیں اور ان کے کئی ارکان ایک نسل پرست جماعت نیشنل فرنٹ کے رکن بھی ہیں۔ نیشنل فرنٹ نے گذشتہ اکتوبر میں ہی ‘White New Zealand and Our Future’ (سفید فام نیوزی لینڈ اور ہمارا مستقبل) کے عنوان سے ریلی نکالنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم عوامی ردعمل پر یہ ریلی منسوخ کردی گئی تھی۔
دوسری جانب پولیس سپرنٹنڈنٹ میک الیرتھ نے دہشت گردوں کی موجودگی کے انکشاف کے بعد اپنی صفائی پیش کرنا شروع کردی ہے۔ میک الیرتھ کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ گذشتہ برس اکتوبر کے مہینے میں نیوزی لینڈ میں چھ مقامات پر ہتھیاروں کے حوالے سے اجلاس ہوئے، ان میں سے ایک اجلاس کرائسٹ چرچ میں بھی ہوا جس میں مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا۔ بیان میں کہا گیا کہ میک الیرتھ کو ایسا کوئی شخص یاد نہیں جس نے اس نوعیت کے خدشات ظاہر کیے ہوں۔
تاہم ہیمش بروس کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے خدشات ظاہر کیے جانے پر پولیس سپرنٹنڈنٹ نے مزید بات کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن بعد میں بات چیت نہ ہوسکی۔