سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اس جماعت کا ہونا چاہیے جس کی اکثریت ہو، پی پی چیئرمین
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اس جماعت کا ہونا چاہیے جس کی اکثریت ہو، پی پی چیئرمین

ڈی جی آئی ایس پی آر کے ذریعے پالیسی بیان دینے سے گریز کیا جائے۔بلاول

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ آپ نے اگر حکومت کرناہے تو خدمت کی حکومت کرنا پڑے گی ، پیپلز پارٹی آپ کو جوبداہ بنائے گی ، آپ نے جہاں سے دھمکی دلوانی ہے دلواﺅ، پیپلز پارٹی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان نے اپنی تعلیمی  پالیسی بیان کرنی ہے تو وہ پالیسی وزیر تعلیم بیان کرے ، داخلی پالیسی وزیر داخلہ کودینی چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اپنی پالیسی پرڈی جی آئی ایس پی آر کے ذریعے بیان دلوانے سے ادارے متنازع ہونگے اور ہم نہیں چاہتے کہ ادارے متنازع ہوں ، راﺅ انواز پر آصف علی زرداری اپنا موقف دے چکے ہیں۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ تحریک انصا ف نے نوماہ کا وقت ضائع کیا ، حکومت قرضہ لینے پر خوشی مناتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے کہا تھا کہ غریبوں کیلیے کام کریں گے، اب کہاں گئے آپ کے وعدے ، آپ نے کہا تھاکہ ایک کروڑ نوکریاں دیں گے ، ہم اب بھی کہتے ہیں کہ ہوش کا ناخن لیں ، اب رمضان آرہاہے اور رمضان میں عوام پر زیادہ بوجھ ڈالا جائے گا ، پیپلز پارٹی اس کوبرداشت نہیں کرے گی ۔

ان کا کہناتھا کہ نیب اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی ، اگر صنعتکاروں اور تاجروں کو تنگ کیا جائے گا تو معیشت نہیں چلے گی ، امیروں کیلیے ایمنسٹی اورغریبوں کیلیے مہنگائی ہے ، کسانوں کوکچھ نہیںدیا ،سبسڈی ختم کی جارہی ہے ، پارلیمنٹ میں لائے بغیر آئی ایم ایف ڈیل کو نہیں مانیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت عام آدمی کوریلیف دے ،پیپلز پارٹی نے تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا اورآپ بھی یہ کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بے نامی اکاﺅنٹس پر آپ کی دوغلی پالیسی نہیں چل سکتی ، بوجھ ڈالناہے تو جہانگیر ترین پرڈالا جائے ، جہانگیر ترین کے بے نامی اکاﺅنٹس پر آپ نے کیا کیا ؟حکومت کواپنی معاشی پالیسی کا جائزہ لیناچاہئے ، آمر کا قانون اور جمہوریت ساتھ نہیں چل سکتے ، چھوٹے تاجروں کوتنگ کیا گیاتو پھر جمہوریت کیسے چلے گی ۔

انہوں نے کہا کہ جب تک ایسا نظام لیکر نہیں آئیں گے جہاں ہر پاکستانی کیلیے ایک جیسا قانون نہیں ہوگا ، جج ، سیاستدان اورجنرل کیلیے ایک قانون نہیں ہوگا تو انصاف کیسے ہوگا ؟ ان کا کہنا تھا کہ نیب خود ایک منی لانڈرنگ کا ادارہ ہے ، ان کو شرم نہیں آتی کیا ہم کوگرفتاری کی دھمکی سے ڈرا سکتے ہو۔

انہوں نے کہاکہ  ہم اٹھارہویں ترمیم ، صدارتی نظام ، فوجی عدالتوں اور جمہوریت پر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ، جو کرنا ہے کرتے رہو، ہم دھمکیوں ، نیب گردی سے ڈرنے والے نہیں ہے ، ہم دباﺅ میں نہیں آئیں گے، پوری پارٹی اور خاندان کوجیل میں بھیج دیں پھر بھی موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ڈنشا کراچی کے پرانے خاندان سے تعلق رکھنے والے ہیں ، ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ، ان کوکیوں گھسیٹ رہے ہو، شرجیل میمن کوقانون کیخلاف وزری کرکے گرفتار کیا گیا اور وہ دوسال سے جیل میں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کیس میں جن پولیس افسران نے کرائم سین کودھو دیا تھا ، ان کو تو بیل دلوائی جاتی ہے لیکن ہم کو بیل دیتے ہوئے کیا ہوتا ہے ؟۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی قیدیوں کوان کا قانونی حق دیا جائے ، دوغلی پالیسی نہیں ہوسکتی ، سراج درانی کوتواسلام آباد میں جاکر گرفتارکیا جاتاہے لیکن تحریک انصاف والوں پربھی مقدمات ہیں ، ان کوچھوڑا جاتاہے ، ہم تو کہتے ہیں کہ انصاف کرولیکن بلاامتیاز احتساب ہونا چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ آپ نے اگر حکومت کرناہے تو خدمت کی حکومت کرنا پڑے گی ، پیپلز پارٹی آپ کو جوبداہ بنائے گی ، آپ نے جہاں سے دھمکی دلوانی ہے دلواﺅ، پیپلز پارٹی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرے گی ۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ اگر عمران خان نے اپنی تعلیمی سیاسی بیان کرنی ہے تو وہ پالیسی وزیر تعلیم بیان کرے ، داخلی پالیسی وزیر داخلہ کودینی چاہئے ، عمران خان کو اپنی پالیسی ڈی جی آئی ایس پی آر کے ذریعے دلوانے سے ادارے متنازع ہونگے اور ہم نہیں چاہتے کہ ادارے متنازع ہوں گے ، راﺅ انواز پر آصف علی زرداری اپنا موقف دے چکے ہیں۔