مصرمیں ایک شہری گذشتہ دنوں اچانک لاپتا ہوگیا۔ اہل خانہ نے اس کی تلاش کی مگر وہ نہ ملا۔ پولیس کو دریائے نیل سےایک شخص کی لاش ملی جو جنوبی قاہرہ کے علاقے حلوان کی عرب غنیم کالونی سے گم ہونے والے 30 سالہ رمضان علاﺅا لدین کا ہم شکل تھا۔
مردہ شخص کی شناخت رمضان علاﺅالدین کے طورپر کی گئی اور اس کے ورثانے لاش دفن بھی کردی۔ تدفین کے تین دن بعد جب اہل خانہ مسلسل تعزیت میں مصروف تھے کہ رمضان اچانک گھرآپہنچا۔
العربیہ کے مطابق دریائے نیل سے جس شخص کی لاش ملی اس میں وہی علامات تھیں جو رمضان کی شناخت کا حصہ ہوسکتی ہیں۔ مثلا اس کے سینے میں جلن کا واضح نشان ہے۔
مردہ شخص کے سینے پر بھی وہی نشان تھا اور لمبائی بھی اتنی ہی تھی تاہم چہرےکی شناخت مشکل ہو رہی تھی۔رمضان علاﺅ الدین کے اہل خانہ صدمے سے نڈھال تھے کہ اس نےاچانک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ وہ زندہ اور عافیت سے ہے۔
وہ اہلیہ سے جھگڑے کے بعد کسی کو بتائے بغیر کام کے لیے اسکندریہ چلا گیا تھا۔ اس کے کسی دوست نے اسے بتایا کہ گاﺅں میں اسے مردہ قرار دے جا چکا ہے۔
بعض اخبارات میں بھی میرے نام کے ساتھ ایک مردہ شخص کی لاش دکھائی گئی تھی۔ میں اسکندریہ کچھ عرصہ کام کاج کرنا چاہتا تھا کہ اپنے بارے میں حیران کن خبر سن کر گھرلوٹ آیا۔
اہل خانہ کو اس کی باتوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا بلکہ بعض نے تو یہ سمجھا کہ ان کے سامنے رمضان علاﺅ الدین کا ہم شکل کوئی جن یا بھوت ہے۔ وہ اس سے باربار سوال جواب کرتے۔
وہ اس کےماضی کے بارے میں کریدتے۔ اگرچہ اہل خانہ کو اپنے گم شدہ فرد کی واپسی کی خوشی تو تھی ان کے لیے پریشانی یہ بن گئی کہ مردہ قراردے گئے شخص کو اب سرکاری ریکارڈ میں دوبارہ کیسے زندہ قرار دلوایا جائے۔
پراسیکیوٹر جنرل نے رمضان اور اس کے اہل خانہ پر سرکاری ریکارڈ میں جعل سازی کا الزام عائدکیا ہے۔ عدالت نے دفن کیے گئے شخص کا بھی پوسٹم مارٹم کرنے کرکے اس کی شناخت کا حکم دیا ہے۔
رمضان کی ماں نےبتایا کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ اپنی بجلی کے سامان کی دکان پر بیٹھی تھی کہ ایک نقاب پوش شخص نے میرا ہاتھ پکڑ کر زور زور سے ہنسنا شروع ہوگیا۔ اس وقت مجھے پتا چلا یہ تو میرا گم شدہ بیٹا ہے۔
میں حیران و پریشان تھی اور مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ قیامت آگئی اور میرے آس پاس لوگ مردے ہیں جو دوبارہ زندہ ہوگئے ہیں۔