کلبھوشن کے حوالے سے ابھی تک بھارت کاجواب موصول نہیں ہوا۔فائل فوٹو
کلبھوشن کے حوالے سے ابھی تک بھارت کاجواب موصول نہیں ہوا۔فائل فوٹو

کلبھوشن کیس میں منہ کی کھانے کے بعد بھارتی سرکار اور میڈیا کی کلابازیاں

عالمی عدالت برائے انصاف میں کلبھوشن یادیو کیس کے فیصلے میں بھارت کی درخواست مسترد ہونے پرمودی سرکار اور بھارتی میڈیا بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا، مودی سرکاراپنے عوام کو فیصلے کا غلط رخ دکھا کرخوش کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف گئی ہے۔

عالمی عدالت برائے انصاف نے کلبھوشن یادیو کیس میں بھارت کی جانب سے جاسوس کو بری کرکے بھارت کے حوالے کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا اور بھارتی جاسوس کو پھانسی کی سزا پر پاکستان کو ریویو کا بھی موقع دے دیا گیا جس پر بھارتی میڈیا اور مودی سرکار روایتی عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی قوم کو جھوٹے بہلاوے دینے لگے۔

عالمی عدالت انصاف سے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر اور جاسوس کلبھوشن یادو  کی بھارتی بریت کی درخواست مسترد ہونے کے باوجود ہندوستانی میڈیا فیصلے کو بھارت کی فتح قرار دیتے ہوئے بغلیں بجانے میں مصروف ہو گیا۔

بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ کلبھوشن یادو کی پھانسی روک کر عالمی عدالت انصاف نے میرٹ کی بنیاد پر ہندوستان کے حق میں فیصلہ دیا ہے،لڑائی ابھی بہت لمبی ہے اور بھارت کو بھی کلبھوشن کو واپس انڈیا لانے کے لئے لمبا سفر کرنا پڑے گا ،شروعات اچھی ہو گئی ہیں،اختتام بھی بہت اچھا ہو گا ۔

بھارتی نجی ٹی وی ’’این ڈی ٹی وی ‘‘ نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے موقع پر اپنی خصوصی نشریات میں فیصلے کو بھارت کی بڑی سفارتی فتح قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی عدالت انصاف نےہندوستانی شہری کل بھوشن یادو کی پھانسی کی سزا پر پابندی لگاتے ہوئے پاکستان کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے اور اس کا جائزہ لینے کا حکم دیا ہے ،پاکستانی ملٹری کورٹ کے فیصلے کو معطل کرنے  کا یہ فیصلہ بھارت کے موقف کی واضح جیت ہے ۔

بھارتی ٹی وی کا کہنا تھا کہ فیصلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ 16 ججوں کے پینل میں شامل چینی جج نے بھی بھارت کے حق میں فیصلہ دیا جو ہندوستان کی بہت بڑی فتح ہے،اختلافی نوٹ صرف ایک جج نے لکھا جو پاکستانی تھا ،یہ اختلافی نوٹ کسی طرح بھی فیصلے پر اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس کی کوئی حیثیت ہے۔

بھارتی نجی ٹی وی ’’زی نیوز ‘‘ نے بھی عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو ہندوستان کی فتح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلہ پاکستانی موقف کی شکست ہے ،بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ان کے فیصلوں کی وجہ سے آج پورے انڈیا میں لوگ خوشیاں منا رہے ہیں ۔

بھارتی ٹی وی کا کہنا تھا کہ کلبھوشن یادو کیس میں عالمی عدالت انصاف میں جانے کا فیصلہ نریندرا مودی نے کیا ،بالا کوٹ میں سرجیکل سٹرائیک کرنے کا فیصلہ مودی نے کیا ،وہ دن بھی جلد ہی آئے گا کہ لوگ کلبھوشن یادو کے بھارت واپس آنے پر مٹھائیاں بانٹیں گے ۔

بھارتی ٹی وی نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے کے بعد کلبھوشن کیس سب سے پہلے ملٹری کورٹ سے سول کورٹ میں آنا چاہئے ،سول کورٹ میں کیس آنے سے انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے ،کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ،حصول انصاف کے تقاضے ملٹری کورٹ سے پورے نہیں ہوں گے، کلبھوشن کیس پر پاکستان چائنہ کی مدد سے سیکیورٹی کونسل میں جا کر معاملے کو طول دینے کی کوشش کرے گا ۔

ایک اور بھارتی ٹی وی ’’اے بی پی نیوز ‘‘ کا کہنا تھا کہ بھارت نے عالمی عدالت میں پاکستان کے خلاف کیس درج کرنے سے پہلے تقریبا  13 بار پاکستان کو کلبھوشن یادیو کے لئے قونصلر رسائی کی اجازت مانگی تھی لیکن پاکستان نے انڈیا کی جانب سے بار بار درخواستوں کے باوجود اجازت نہیں دی، پاکستان نے ہندوستانی شہری کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد بھارت کو دو ہفتے بعد  اطلاع دی اور عالمی عدالت انصاف میں بھی بھارت کی فتح کی  یہی وجہ بنی۔

فیصلے سے قبل ہی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر سابق بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے عالمی عدالت برائے انصاف کے فیصلے کو اپنے حق میں تصور کرتے ہوئے وزیراعظم نریندرا مودی کو مبارک باد بھی دے بیٹھیں۔ صارفین نے حیرت کا اظہار کیا اور فیصلے کے اقتباسات کے اسکین شاٹ لگائے جب کہ کچھ نے کہا کہ میڈم آپ کی آسانی کے لیے انگریزی فیصلے کا ترجمہ کردیں؟

بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس نے بھی فیصلہ سنے بغیر ہی اپنے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ داغ دی کہ ’ عالمی عدالت برائے انصاف کے فیصلے کو خوش آمدید کہتے ہیں، یہ بھارت کی بہت بڑی جیت ہے اور ہم کلبھوشن کی جلد از جلد واپسی کے لیے دعا گو ہیں۔

واضح رہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے جاسوس کلبھوشن یادیوکومارچ 2016 میں بلوچستان سے گرفتارکیا گیا تھا۔ بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر نے پاکستان میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں کا اعتراف کیا تھا جس پرفوجی عدالت نے کلبھوشن کو سزائے موت سنائی تھی جس کے خلاف بھارت نے مئی 2017 کو عالمی عدالت سے رجوع کیا تھا۔