سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائزاورجسٹس کے کے آغا کے ریفرنسزپرکارروائی روک دی،کارروائی سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر ہونے کے بعد روکی گئیں ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اورجسٹس کے کے آغاکےخلاف سپریم جوڈیشل کونسل نے کارروائی روک دی ہے،صدارتی ریفرنس پرکارروائی سپریم کورٹ میں زیرالتوا آئینی درخواستوں کے باعث روکی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ریاست کوچلانے میں سیاسی گنجائش کی کمی پربارکی تشویش کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا،ریاستی امورمیں سیاسی فقدان مستقبل کی آئینی جمہوریت کیلیے اچھا شگون نہیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ سیاسی انجینئرنگ کیلیے احتساب کے عمل کے بارے میں یکطرفہ جھکائوکاتاثرتباہ کن ہے،اس تاثرکوزائل کرنے کیلیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ احتساب کے عمل کی ساکھ متاثرنہ ہو۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ شہریوں سے لوٹی دولت کی واپسی ایک اچھا عمل ہے،غیرجانبدارانہ عمل کے بغیریہ اقدام معاشرے کیلیے زیادہ مہلک ہوگا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ قلیل المدتی سیاسی فائدے کے لیے آئینی حقوق پرسمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے،جمہوریت میں دور اندیشی اور برداشت لازمی ہے،اختلاف اور برداشت کے بغیرجبرکا نظام ہوتا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے ماضی میں دیکھا کہ اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدر کے پاس یہ آئینی اختیار ہے کہ وہ اعلیٰ عدالتوں کے کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس بھیج سکتے ہیں اور سپریم جوڈیشل کونسل آئین کے مطابق اس ریفرنس پر کارروائی کرنے کی پابند ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدر کی طرف سے بھیجا گیا ریفرنس یا ان کی رائے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر اثر انداز نہیں ہوسکتی۔
اُنھوں نے کہا کہ اب سپریم جوڈیشل کونسل میں 9 ریفرنسز زیر سماعت ہیں جبکہ باقی ریفرنسز نمٹا دیے گئے ہیں تاہم چیف جسٹس نے ان ججز کے نام نہیں بتائے جن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی چل رہی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف ریفرنسز کی سماعت کرنا اس کونسل کے چیئرمین اور اس کے ارکان کے لیے ناخوشگوار عمل ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس عمل سے گزرنا پڑتا ہے کیونکہ ججز اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے ۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لوگ سپریم جوڈیشل کونسل سے انصاف کے علاوہ اور کسی چیز کی امید نہ رکھیں۔
اُنھوں نے کہا کہ کچھ لوگ جوڈیشل ایکٹو ازم نہ ہونے کی وجہ سے آواز اُٹھا رہے ہیں جبکہ اس سے قبل یہی لوگ جوڈیشل ایکٹو ازم کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔
اُنھوں نے کہا کہ صرف قومی اہمیت کے معاملے پر از خود نوٹس لیا جائے گا۔ اُنھوں نے کہا کہ ملک میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ احتساب کا عمل سیاسی انجینئرنگ ہے اور اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہییں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کریمنل جسٹس سسٹم میں اس وقت تک بہتری نہیں آسکتی جب تک پولیس میں اصلاحات نہیں لائی جاتیں۔