اسلام آباد ہائیکورٹ نے فردوس عاشق اعوان کی معافی کی استدعا مسترد کردی۔عدالت نے معاون خصوصی برائے اطلاعات کو11نومبرتک تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، فردوس عاشق نے عدالت سے پھرغیر مشروط معافی کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے 11 نومبرکو دوبارہ طلب کرلیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے کہا ہمارے بارے میں دنیا جو کہتی ہے اس سے اثرنہیں پڑتا، 2014 میں بھی ہمارے خلاف باتیں ہوتی تھیں لیکن وہ دوسری جانب سے ہوتی تھی۔
عدالت نے فردوس عاشق سے استفسارکیا آپ 2014 میں دھرنے میں تھیں،ہائیکورٹ بارکے ایک ممبرنے 2014 میں چھٹی کے روز درخواست دائر کی تھی، جب 2014 میں دفعہ 144 میں گرفتاریاں کی جا رہی تھیں تو اسی عدالت نے روکا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا اس عدالت نے قانون کے مطابق چلنا ہے اور کسی کو کوئی رعایت نہیں دینی،ہرجج نے اللہ کو حاضر ناظرجان کر حلف لیا ہوتا ہے، سنگین جرم کرنے والے کو بھی شفاف ٹرائل ملنا اس کا حق ہے، چاہے کوئی دہشت گرد ہی کیوں نہ ہو وہ عدالت کے سامنے ملزم ہے۔
فردوس عاشق اعوان کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ہم گزشتہ روز جواب جمع نہیں کروا سکے، جس پرعدالت نے کہا کوئی بات نہیں آپ اب جواب جمع کروا دیں، ہم کیس پھر سماعت کیلیے مقرر کر دیں گے، مجھے لوگ آج کہتے ہیں کہ تمہاری گاڑی کی تصویریں سوشل میڈیا پرچل رہی ہیں، میرے ساتھ سپریم کورٹ کے جج بیٹھے تھے اورانہیں ن لیگ کا صدر کہا گیا۔ عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی حاضری سے استثنیٰ کی استدعا بھی مسترد کرتے ہوئے 11 نومبر کو دوبارہ طلب کرلیا۔