قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت نے 6 آرڈیننس واپس لے لیے جبکہ ایوان نے 5 قوانین کی متفقہ منظوری دیدی۔
اسپیکراسد قیصرکی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں حکومت اوراپوزیشن میں اتفاق رائے کا غیر معمولی مظاہرہ ہوا۔
حکومت نے قومی اسمبلی میں 6 آرڈیننس واپس لے لیے جن میں سکسیشن سرٹفکیٹ آرڈیننس، لیگل ایڈ آرڈیننس، خواتین کے جائیداد میں حقوق سے متعلق آرڈیننس، بے نامی لین دین، اعلی عدلیہ کے ڈریس کوڈاور قومی احتساب آرڈیننس شامل ہیں۔
جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی آرڈیننسز کی واپسی اور بلزکی شکل میں منظوری پراعتراض کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اوراپوزیشن نے ہمیں مذاکراتی عمل میں اعتماد میں نہیں لیا۔
حکومت نے یہ آرڈیننس اسمبلی میں 6 بلز کی شکل میں پیش کیے جن میں سے 4 بلز وراثتی سرٹیفکیٹ بل ، قانونی معاونت وانصاف ،اعلی عدلیہ میں لباس اور خواتین کے جائیداد کے بلزکی متفقہ طور پر فوری منظوری دیدی گئی جب کہ قومی احتساب اور بے نامی لین دین سے دو بلزمزید غورکے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیے گئے۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بچوں کے خلاف جرائم کے سدباب کے لیے زینب الرٹ جوابی ردعمل اور بازیابی ایکٹ 2019 بل پیش کیا جسے شق وار طور پر منظور کرلیا گیا۔
بل کے مطابق بچوں سے متعلق جرائم کا فیصلہ تین ماہ کے اندر کرنا ہوگا، بچوں کے خلاف جرائم پر کم سے کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال قید سزا دی جاسکے گی اور دس لاکھ روپے جرمانہ ہوسکے گا۔
گمشدہ بچوں سے متعلق ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا، 1099ہیلپ لائن قائم کی جائے گی جس پر بچے کی گمشدگی، اغوا اور زیادتی کی اطلاع فوری طور پر ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، ہوائی و ریلوے اڈوں، مواصلاتی کمپنیوں کے ذریعے دی جائے گی۔
قانون کے مطابق جو سرکاری افسر دو گھنٹے کے اندر بچے کے خلاف جرائم پرردعمل نہیں دے گا اسے بھی سزا دی جاسکے گی، 185 سال سے کم عمر بچوں کااغوا، قتل، زیادتی، ورغلانے، گمشدگی کی ہنگامی اطلاع کے لیے زینب الرٹ جوابی ردعمل و بازیابی ایجنسی قائم کی جائے گی۔