عراق کے دارالحکومت بغداد میں پھر مظاہرے شروع ہو گئے،مظاہرین پرفائرنگ میںدو سیکیورٹی اہلکاروں سمیت6 افراد ہلاک اور200زخمی ہوگئے جبکہ انتہائی سیکیورٹی والے گرین زون میں واقع امریکی سفارت خانے کے پاس دو راکٹ داغے جانے کی اطلاع ہے۔
عراقی دارالحکومت بغداد میں پیر کی رات سے منگل کی صبح تک حکومت کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران تصادم کی خبریں ہیں، جس میں سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ میں اب تک تین افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں ایک نوجوان صحافی بھی شامل ہے، جو مظاہروں کی رپورٹنگ کر رہا تھا۔ حکومت نے پرتشدد مظاہروں کے سبب بغداد کے مختلف علاقوں کی ناکہ بندی کا حکم دیا ہے۔
سیکیورٹی اور طبی عملے نے تصدیق کی ہے کہ بغداد کے سناک پل اور طیران اسکوائر پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل داغے گئے اور ساتھ ساتھ گولیاں بھی فائرکی گئیں۔ طبی عملے کے مطابق ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا جبکہ دوسرے کے سر پرآنسو گیس کا شیل لگا جبکہ تیسرا شخص زخمی ہونے کے بعد ہسپتال میں ہلاک ہوا ہے۔
21 سالہ صحافی یوسف عبدالستار ان مظاہروں کی رپورٹنگ کے لیے بغداد میں تھے اور وہ بھی اس دوران ہلاک ہو گئے ہیں۔ حکومت کے خلاف ناراضگی کی وجہ سے ان مظاہروں کا آغازگزشتہ اکتوبر میں ہوا تھا لیکن بغداد میں ایک امریکی حملے میں ایرانی جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران اورامریکا کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے سبب ان مظاہروں کی شدت میں کمی آ گئی تھی۔
پیرکی رات ایک بار پھر پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے۔ اس دوران سیکیورٹی حکام اورعینی شاہدین نے بتایا کہ بغداد کے انتہائی سیکیورٹی والےگرین زون میں واقع امریکی سفارت خانے کے قریب کم سے کم دو راکٹ آ کرگرے۔
ان حملوں کے فوری بعد سائرن کی آوازیں سنی گئی ہیں لیکن حملوں میں جانی یا مالی نقصان کے بارے میں ابھی حکام کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔