چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سندھ کے شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
نیب کی جانب سے آراو پلانٹس تنصیب میں پیسے کی خرد برد کی رپورٹ جمع کروائی گئی جبکہ واٹرکمیشن نے بھی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاکھوں روپے کھا لیے گئے لیکن ایک بھی آراو پلانٹ نہیں لگا، سب پیسے کھا گئے ہڑپ کرگئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے نیب کی کارکردگی پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ نیب لوگوں پرہاتھ ڈالتا ہے، نیب کا تفتیشی افسر ریفرنس تیار کرنے میں پانچ سال لگاتا ہے، پھرایک دن نیب کا افسر خود کہتا ہےکہ ملزم کو جانے دیا جائے، نیب اب استحصالی ادارہ بن چکا ہے، نیب کو جو کردارادا کرنا چاہیے تھا وہ ادا نہیں ہو رہا، اسے جس مقصد کے لیے بنایا گیا وہ ختم ہوگیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کی بہتری کے لیے نیب نے جو کردار ادا کرنا تھا اس میں رکاوٹ بن گئے ہیں، ایک سال میں مقدمات کا فیصلہ ہونا چاہیے 6، 6 سال گزرجاتے ہیں، 4 گواہان کی جگہ آپ مقدمے میں 200 گواہ بنالیتے ہیں، آپ 2 سال میں ریفرنس بناتے ہیں اور10، 10 سال آدمی کو رگڑتے رہتے ہیں
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے تفتیشی افسران میں صلاحیت ہی نہیں کہ وہ تفتیش کو انجام تک پہنچائیں، آپ کے اندر کام کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، آپ پر تو اربوں روپے کا جرمانہ ہونا چاہیے، یہ جرمانہ آپ کی جیبوں سے جانا چاہیے حکومت ایک روپیہ نہیں دے گی۔
سپریم کورٹ نے سندھ واٹر کمیشن اور اس کے سیکریٹریٹ کو تحلیل کرتے ہوئے اپنا تمام تر ریکارڈ چیف سیکرٹری سندھ کے حوالے کرنے کا حکم دیا اور کیس کی سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کردی۔
عدالت نے ہدایت کہ سندھ حکومت واٹر کمیشن کی رپورٹ پرہر15 دن میں عمل درآمد رپورٹ پیش کرے، ایڈووکیٹ جنرل واٹرکمیشن کی رپورٹ پرعملدرآمد یقینی بنائیں۔ سپریم کورٹ نے سندھ میں واٹر کمیشن کا کام پورا ہونے کے بعد تمام درخواستیں نمٹا دیں۔
عدالت نے سندھ میں تھر کول مائننگ کی آڈٹ رپورٹ پر جواب جمع نہ کرانے پراظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کول اتھارٹی کی جانب سے کول مائینزپر158 ارب روپے کے اخراجات کی تفصیل جمع کرائی جائے۔
عدالت نے سندھ کول اتھارٹی کیس اور صاف پانی کیس کو یکجا کرنے جبکہ نیب کو مقدمات کے حوالے سے ریفرنس و دیگر معاملات ایک ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیا۔
علاوہ ازیں عدالت نے سرکاری گھروں کی خلاف قانون الاٹمنٹ پرازخودنوٹس کی سماعت بھی کی۔ سپریم کورٹ نے سرکاری گھروں میں رہائش پذیر افسران کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کے کتنے سرکاری گھروں پر قبضہ ہے، آگاہ کیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سرکاری افسران نے اپنے گھر بنا لیے لیکن سرکاری گھر چھوڑنے کو تیار نہیں، 80 فیصد افسران نے سرکاری گھرکرائے پر دے رکھے ہیں، جب تک فراڈ کرنے والے پچاس لوگ فارغ نہ کیے بہتری نہیں آئے گی، کیا سرکاری گھرکرائے پر دینے والے افسران نوکری پر رہنے کے قابل ہیں؟ سرکاری گھروں پر زبردستی قابض افسران بے ایمان ہیں۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری ہاؤسنگ سے کہا کہ سرکاری افسران کو گھر دینا ہی بند کر دیں۔
سیکرٹری ہاؤسنگ نے بتایا کہ سرکاری گھروں کی کل تعداد 28 ہزار ہے، اسلام آباد میں 17ہزار آٹھ سو سرکاری گھر ہیں، دارالحکومت میں 1517 سرکاری گھروں کا قبضہ واگزارکرا لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قبضہ کرنے والے افسران کیخلاف کیا کارروائی ہو رہی ہے؟ سرکاری افسران کیخلاف آپ کی کارروائی کا بھی الٹا ہی نتیجہ نکل رہا۔
عدالت نے سرکاری گھر کرائے پر دینے والے افسران کیخلاف فوجداری کارروائی حکم دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت دو ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔