وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمن کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ تمام پالیسیز صوبوں کی مشاورت سے تشکیل دی جارہی ہیںؕ
سینیٹ میں اظہارخیال کرتے ہوئے وزیرخارجہ کا کہنا تھاکہ ہم کورونا کا مقابلہ کریں گے اوراسے شکست دیں گے، شیری رحمان نے کہا کہ کنفیوژن ہے، یہ بات درست نہیں، ملک میں کوئی کنفیوژن نہیں، پالیسی واضح ہے اورقومی حکمت عملی مرتب کی جاچکی ہے۔
انہوں نے کہا کورونا وائرس کے باعث دنیا کے دیگر ممالک کو جس کیفیت کا سامنا پاکستان کو بھی اسی کیفیت میں رہتے ہوئے اس وائرس کا سامنا ہے اور ہم اس وبا کو شکست دینے میں کامیاب رہیں گے۔
وزیراعظم کی عدم موجودگی پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ وزیراعظم روزانہ باقاعدگی کے ساتھ کورونا وائرس سے متعلق اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں جس میں تمام صوبوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔
وزیر خارجہ نے سندھ حکومت کے آرڈیننس پر شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا ہےکہ سندھ حکومت کیا آرڈیننس لا رہی ہے اور آپ بجلی کے بل معاف کیسے کرسکتے ہیں؟ آپ ہوتے کون ہیں بل معاف کرنے والے؟۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کوئی شک نہیں کہ کورونا چیلنج ہے، دینا کہہ رہی ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دوسرا بڑا بحران کورونا ہے، امریکا اور یورپ کے اپنے ہاتھ پاؤں پھول گئے، سب کی کیفیت آپ کے سامنے ہے۔
شاہ محمود نے مزید کہا کہ وزیراعظم نے ہرگز نہیں کہا کہ لاک ڈاؤن اشرافیہ نے کرایا، وزیراعظم کی بات کی میں وضاحت کردیتا ہوں، وزیراعظم نے کہا ملک میں ایک مزدور طبقہ ہے، ایک اشرافیہ ہے اور اس کے پاس لاک ڈاؤن میں زندہ رہنے کے وسائل ہیں لیکن غریب میں صلاحیت نہیں، ہم نے بھوک اور غربت سے جان بچانی ہے، ماہرین نے کہا کہ اگرلاک ڈاؤن رکھا جاتا تو لوگ غربت کی لکیرسے نیچے چلے جائیں گے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ملک میں کورونا سے متعلق یونیفارم پالیسی ہے، کورونا کی قومی پالیسی میں سندھ کی ان پُٹ موجود ہے، ن لیگ کی رائے ہمیں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں سے ہمیں مل جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا تاثر دیا جا رہا ہے کہ کورونا کا حل لاک ڈاؤن ہے لیکن یہ درست نہیں، لاک ڈاؤن تو اس کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے،کورونا کا حل ویکسین ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھاکہ ہم نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا اگر اجلاس بلانے میں ہچکچاہٹ ہوتی تو کیوں بلاتے، اجلاس کا مقصد ہے ہم آپ کی گفتگو سنیں، قومی ایمرجنسی ہے اور قومی حکمت عملی بنانی ہے، سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین خود اس اجلاس کو بلانے کے خلاف تھے، خود پیپلزپارٹی کی قیادت بحث میں رہی کہ اجلاس بلایا جائے یا ورچوئل بلایا جائے۔
انہوں نے سندھ حکومت اورآرڈیننس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کہ سندھ ہمارا ہے، اس کے دارالحکومت میں پی ٹی آئی اور ایم کیوایم کی اکثریت ہے، آپ صوبے کے ٹھیکیدارنہ بنیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اندرون سندھ میں کونسا لاک ڈاؤن ہے؟ مراد علی شاہ کی محنت سے ہرگز انکار نہیں کروں گا، گلگت اورآزاد کشمیر نے اچھی محنت کی ہے، انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں لیکن آج وفاق کی علامت والی جماعت سے سندھ کی بو آرہی ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ سندھ میں تاجروں سے ان کے مذاکرات ناکام ہوئے، وہاں کے تاجروں نے کہا کہ ہم لاک ڈاؤن کھول رہے ہیں پھرانہیں مجبوراً لاک ڈاون کھولنا پڑا، ہمارے ملک میں کوئی آمریت نہیں ہے، یہاں لوگوں کو قائل کرنا پڑتا ہے اور ہم ڈنڈے کے زور پر کچھ نہیں کرسکتے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے قائل ہیں اور وہ ہماری ہے، واضح کہتا ہوں، اٹھارہویں ترمیم کو دفن کرنا ہماری سیاست نہیں، اس کے عمدہ پہلو ہمیں قبول ہیں لیکن ترمیم میں جو مسائل سامنے آئے اس پر بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔
شاہ محمود کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کیا آرڈیننس لا رہی ہے،آپ بجلی کے بل معاف کیسے کرسکتے ہیں؟ آپ ہوتے کون ہیں بل معاف کرنے والے، سندھ کے ساتھ ہرگز امتیازی سلوک نہیں روا رکھا جا رہا، اس کو آبادی کے تناسب سے زیادہ سامان دیا، سندھ کے ساتھ نا زیادتی ہوئی ہے نہ کریں گے، جیسے پنجاب میں لوہا منوایا اب سندھ میں ہم اپنا لوہا منوائیں گے، تیاری کرلو۔
خیال رہے اس سے قبل سینیٹر شیری رحمن نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم کہاں ہیں؟ آج وہ مسنگ پرسن ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ ملک کو کون چلا رہاہے؟۔