سعودی عرب نے رواں سال کے لیے حج پالیسی کا اعلان کردیا جس کے مطابق اس برس صرف سعودی عرب میں مقیم افراد حج کی ادائیگی کرسکیں گے۔
سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق وزارت حج نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس سال حج کو محدود رکھا جائے گا اور سعودی عرب میں مقیم مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اس میں شرکت کریں گے۔ کورونا وائرس وبا کے باعث اس سال بیرون ملک سے عازمین کو حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس وبا کے پھیلاؤ اور ویکسین کی عدم دستیابی کے باعث حج کے شرکا کی تعداد محدود رکھی جائے گی جس سے حج کے دوران عازمین کے مابین سماجی فاصلہ برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔
وزارت حج کے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ وبا کے آغاز سے حرمین شریفین آنے والے زائرین و عازمین کی صحت و عافت یقینی بنانا ہماری اولین ترجیح رہی ہے۔ مقدس مقامات کو زائرین کے محفوظ بنانے کے لیے پہلے عمرہ زائرین پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ متعدد اسلامی اور بین الاقوامی تنظٰیموں نے وبا کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کے لیے ہمارے ان اقامات کا اعتراف کیا ہے۔ اسی تناظر میں وبا کے پھیلاؤ کی صورت حال ک پیش نظر اس برس حج کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
حج سے متعلق سعودی حکومت کی جانب سے کسی حتمی اعلان میں تاخیر کی بنا پر انڈونیشیا نے پہلے ہی اپنے شہریوں کو حج میں شریک ہونے سے روک دیا تھا واضح رہے انڈونیشیا سے سب سے زیادہ عازمیں حج میں شریک ہوتے ہیں۔ بعدازاں ملائیشیا، سینیگال اور سنگاپور نے بھی اپنے شہریوں کی حج میں عدم شرکت کا اعلان کردیا تھا۔
تاریخ میں پہلی مرتبہ حج 629 عیسوی (چھ ہجری) کو پیغمبرِ اسلام کی قیادت میں ادا کیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ فریضہ ہر سال ادا ہوتا رہا۔
سعودی عرب کے ملک عبدالعزیز سینٹرکے مطابق اب تک تاریخ میں 40 ایسے مواقع آئے ہیں جب حج متاثر ہوا ہے۔ اس کی وجوہات میں وباو¿ں کے علاوہ جنگیں، موسم اور علاقائی عدم استحکام شامل ہیں۔1932 میں جب سے سعودی عرب کی ریاست وجود میں آئی ہے، حج بیت اللہ ہر سال ادا کیا گیا، کبھی اس میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔
شاہ عبدالعزیز مرکز کے مطابق اس سے پہلے 865 میں اسمٰعیل ابن یوسف علاوی نے عین حج کے دوران حملہ کر کے سینکڑوں حاجیوں کو قتل کر دیا تھا، جس کی وجہ سے حج رک گیا تھا۔ اس واقعے کو ’بالائی عرفات کا قتلِ عام‘ کہا جاتا ہے۔
حج کی معطلی کا سب سے بڑا واقعہ 930 میں پیش آیا جب قرامطیوں نے نہ صرف حج زبردستی روک دیا بلکہ بڑی تعداد میں حاجیوں کو قتل کیا اورحجرِ اسود کو اکھاڑ کر اپنے ملک لے گئے۔اس واقعے کی تفصیل سلطنتِ عثمانیہ کے تاریخ دان قطب الدین نے بیان کی ہے۔930 میں بحرین پر قابض قرامطی (اسماعیلی) فرقے کے سردارابو طاہرالجنبی نے مکّہ مکرمہ پر بڑے لشکر کے ساتھ حملہ کر دیا، تاریخ دانوں کے مطابق اس ہولناک فوجی حملے کے دوران 30 ہزار نہتے حاجیوں کو شہید کر دیا اور سینکڑوں حاجیوں کی نعشوں کو زمزم کے متبرک کنوئیں میں پھینک کراس کا تقدس پامال کیا گیا۔
ان ظالموں نے اسی پر بس نہیں کی، بلکہ مسجد الحرام میں بھی ل±وٹ مار کی اور واپس جاتے وقت خانہ کعبہ سے حجر اسود بھی اپنے ساتھ بحرین لے گئے۔اس واقعے کے بعد کئی سال تک حج بیت اللہ نہ ہوا، تاہم جب بحرین سے حجر اسود واپس لا کر خانہ کعبہ میں نصب کیا گیا تو اس کے بعد اگلے سالوں میں دوبارہ حج کے مناسک کی ادائیگی شروع ہو گئی۔
983 اوراس کے بعد کے کئی سال بھی ایسے تھے جب حج نہ ہو سکا، اس کی وجہ ایران و عراق اور دیگر اسلامی علاقوں پر قائم عباسی خلافت اور شام کی فاطمی خلافت کی آپسی جنگیں تھیں، جن کے دوران حاجیوں کو مکہ مکرمہ جانے سے روک لیا جاتا تھا۔ مسلمانوں کی خانہ جنگی کے باعث 983 سے 990 تک کے مسلسل آٹھ سالوں میں حج کی ادائیگی نہ ہوئی تاہم 991 میں حج کے دوران ایک بار پھر بیت اللہ میں لاکھوں مسلمان امڈ پڑے۔
یہاں یہ بتاتے چلیں کہ صرف جنگوں، سیاسی تنازعات اور قتلِ عام کے باعث ہی حج منسوخ نہیں ہوا بلکہ وسیع پیمانے پر پھ±وٹنے والی وبائوں نے بھی کئی بار حج منسوخ کروا دیا۔
شاہ عبدالعزیز فائونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 357 ہجری میں ایک اور بڑے واقعے کی وجہ سے لوگ حج نہ کر سکے اور یہ واقعہ دراصل ایک بیماری تھا۔ رپورٹ میں ابنِ خطیر کی کتاب ’آغاز اور اختتام‘ کا حوالہ دے کر لکھا گیا ہے کہ الماشری نامی بیماری کی وجہ سے مکہ میں بڑی تعداد میں اموات ہوئیں۔بہت سے زائرین راستے میں ہی ہلاک ہوئے اور جو لوگ مکہ پہنچے بھی تو وہ حج کی تاریخ کے بعد ہی وہاں پہنچ سکے۔
1831ءمیں برصغیر پاک و ہند میں طاعون کی وبا پھیلی ، اس خطے کے عازمین جب حج کی خاطر مکہ مکرمہ پہنچے تو متاثرہ افراد کے ساتھ ساتھ اس خوفناک وبا نے مکہ مکرمہ میں بھی ہزاروں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔تاریخی حوالوں کے مطابق طاعون کے باعث حج کے آغاز میں ہی مکہ میں موجود تین چوتھائی حاجی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔
اسی طرح 1837 سے لے کر 1858 میں دو دہائیوں میں تین مرتبہ حج کو منسوخ کیا گیا جس کی وجہ سے زائرین مکہ کی جانب سفر نہ کر سکے۔سنہ 1846 میں مکہ میں ہیضے کی وبا سے تقریباً 15 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ یہ وبا مکہ میں 1850 تک پھیلتی رہی لیکن اس کے بعد بھی کبھی کبھار اس سے اموات ہوتی رہیں۔
390 ہجری (1000 عیسوی کے قریب) میں مصر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حج کے سفر کے اخراجات میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے لوگ حج پر نہ جا سکے اور اسی طرح 430 ہجری میں عراق اور خراساں سے لے کر شام اور مصر کے لوگ حج پر نہ جا سکے۔
492 ہجری میں اسلامی دنیا میں آپس میں جنگوں کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا جس سے فریضہ حج متاثر ہوا۔654 ہجری سے لے کر 658 ہجری تک حجاز کے علاوہ کسی اور ملک سے حاجی مکہ نہیں پہنچے۔ 1213 ہجری میں فرانسیسی انقلاب کے دوران حج کے قافلوں کو تحفظ اور سلامتی کے باعث روک دیا گیا۔
417 ہجری کو عراق میں شدید سردی اور سیلابوں کی وجہ سے زائرین مکہ کا سفر نہ کر سکے، اس طرح شدید سرد موسم کی وجہ سے مناسک حج منسوخ کر دیے گئے۔
1925 میں خانہ کعبہ کے غلاف، کسوہ کو مصر سے سعودی عرب لے کر جانے والے قافلے پر حملہ ہوا جس کی وجہ سے مصر کا کوئی حاجی بھی خانہ کعبہ نہ جا سکا۔
واضح رہے کہ کورونا وائرس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سعودی حکومت فروری ہی میں عمرے پر پابندی عائد کرچکی ہے اور گزشتہ ہفتے تین ماہ تک جاری رہنے والے لاک ڈاؤن کے خاتمے کے باجود عمرہ ادائیگی پر پابندی برقرار رکھی گئی ہی۔