سابق وزیراعظم شجاعت حسین نے انکشاف کیا کہ کچھ لوگ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے پردھاوے کے حامی تھے۔
نجی ٹی وی کے مطابق چوہدری شجاعت حسین نے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے اور نواز شریف کے مختلف فیصلوں کے متعلق بیان دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان سے جا کر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھا، سب ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ آپ بات کریں آپ بات کریں۔
ق لیگ کے سربراہ نے بتایا کہ چوہدری پرویزالہیٰ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کےممبر نہیں تھے لیکن ان سے کہا گیا کہ وہ عمران خان سے بات کریں۔ چوہدری پرویزالٰہی نے عمران خان سے ملاقات کی اورانہیں درست مشورہ دیا۔
چوہدری پرویزالہی نےکہا کہ اگر مار کٹائی شروع ہوگئی اور کوئی آدمی مر گیا توالزام لینے پر کوئی تیار نہیں ہو گا۔ پرویزالہی نے عمران خان کو بتایا کہ وزیراعظم ک ہر چیز کا جواب دینا پڑے گا جس پر فیصلہ موخرکردیا گیا۔
سربراہ ق لیگ نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمن کے معاملے پر ہماری پارٹی پرالزام لگایا گیا حالانکہ پرویزالہیٰ کی باہمی سوچ پرعمل کرتے ہوئے معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہوا۔
چوہدری شجاعت حسین نے کہا عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس وقت حالات کیا ہوں گے، ایک طرف پولیس تھی اور دوسری طرف مدارس کے طلباء مولانا فضل الرحمن کے آرڈر کا انتظار کر رہے تھے۔
مولانا فضل الرحمن نے ان حالات میں بڑی دور اندیشی کا ثبوت دیا اور تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ مولوی صاحبان اور پولیس چند قدموں پر کھڑے تھے لیکن لڑائی نہیں ہوئی۔ دھرنے کے سارے واقعہ میں ایک گلاس تک نہیں ٹوٹا۔
انہوں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ وزیراعظم عمران خان مسائل کو باہمی مشاورت سے حل کرنے کی کوشش کریں۔ ملک کے بحران کو سب چیزیں بھول کر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
چوہدری شجاعت حسین نے یہ بھی بتایا کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھی ملیحہ لودھی کو بغاوت کے کیس گرفتار کرنے کا کہا تھا۔ میں نے اختلاف کیا اور کہا کہ اس اقدام سے صحافی برادری اور انٹرنیشنل کمیونٹی میں اچھا تاثر نہیں جائے گا اور اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔