بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ جب اس ملک کے قانون بنائے جارہے تھے اور ہم سے معاہدات کیے جا رہے تھے تو اس وقت یہ نہیں کہا گیا تھا کہ بلوچوں کی تاریخ خون سے لکھی جائے گی بلکہ یہ کہا گیا تھا کہ آپ کو برابری اورعزت سے پیش آیا جائے گا۔
کوئٹہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئےانھوں نے حاضرین جلسہ سے پوچھا کہ کیا آپ کو برابری اور عزت مل رہی ہے۔ کیا ان سڑکوں پرآپ کے لیے کوئی برابری کا سلوک کیا جا رہا ہے۔
اختر مینگل نے کہا کہ یہاں اب آپ کو اجتماعی قبریں ملیں گی۔ انھوں نے کوئٹہ پریس کلب کے باہر لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کے کیمپ اوران کی کراچی اور اسلام آباد کی طرف پیدل احتجاجی مارچ کا بھی ذکرکیا۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس داخل کر دیے گئے۔ بھائی ریفرنس کس نے دائر کیا؟ خود کل کی سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ وہ ریفرنس غلط تھا۔
انھوں نے کہا کہ یہ ریفرنس داخل کرنے والوں کو بھی تو کوئی سزا ملنی چائیے یا یہ کہ وہ آپ کو نظر نہیں آ رہے ہیں۔ انھوں نے پھر کہا کہ میں آپ کو اس کے بارے میں بتاتا ہوں جو ایوان صدر میں ہر حکومت کا منشی بن کر بیٹھا ہے۔
سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان کا قانون نہیں توڑا مگر ان لاپتہ افراد کو آپ دس دس سالوں تک عقوبت خانوں میں رکھا۔ان کے مطابق لاپتہ افراد کی بیگمات ہم سے آ کر پوچھتی ہیں کہ کم از کم یہ تو معلوم ہو جائے کہ ہم بیوہ ہیں یا نہیں؟
اختر مینگ نے کہا کہ ان بچوں کا غائب کرنا والا کون ہے؟ بلوچستان میں پانچواں فوجی آپریشن کرنے والا کون ہے؟ اس کے بعد سردار اختر مینگل نے کہا کہ ’سیاست میں مداخلت بھی ہم ہی کرتے ہیں ناں، ڈبے ہم بھرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اس صوبے میں راتوں رات پارٹیاں بن جاتی ہیں۔ اب ایک پارٹی بنی جس کا نام باپ ہے۔ پہلے انھوں نے اس پارٹی کا نام پاپ (پاکستان عوامی پارٹی) رکھا تھا پھر کسی نے کہا کہ اس کا مطلب گنا ہے تو پھر باپ کے نام سے یہ گنا ہمارے ذمہ لگا دیا۔
انھوں نے کہا کہ ہم سرحدوں کی حفاظت بھی خود ہی کریں گے اور سیاست کی طرح اس میدان میں بھی ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ ہم اس سرزمین اوراس مٹی کے لیے پیدا ہوئے ہیں اورانشاللہ اسی سرزمین میں ہم دفن ہوں گے اوراسی میں مریں گے۔
انھوں نے کہا کہ یہ جو باپ کے بٹیرآپ نے پال رکھے ہیں یہ ہمارے شیروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے بھائی۔ یہ پھونک سے ہی اڑ جائیں گے۔
انھوں نے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو کوئٹہ ایئرپورٹ پر روکے جانے پر کہا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ وہ دوسرے صوبوں میں بات کرسکتے ہیں مگر کوئٹہ میں خطاب نہیں کر سکتے۔ اس طرح آپ ثابت کر رہے ہیں کہ یہاں اب بھی نو آبادیاتی طرز حکومت جاری ہے۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ آئندہ آنے والی حکومتیں بلوچستان کے لوگوں کو برابری دی جائے گی، انھیں دیگر پاکستان کے رہنے والوں کی طرح عزت دی جائے گی اور یہاں سے نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ کرنا ہو گا۔