امریکی ریاست فلاڈیلفیا میں پولیس کی فائرنگ سے ایک اور سیاہ فام شہری ہلاک ہو گیا۔
امریکی صدارتی انتخابات سے صرف ایک ہفتہ قبل پیش آنے والے اس واقعے نے عوام میں موجود غم وغصہ کو چنگاری دے دی ہے اور وہاں احتجاج کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع ہو گیا ہے۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق پیر کی صبح دو پولیس اہلکاروں نے سیاہ فارم شہری کو ہاتھ میں پکڑی چھری کو گرانے کا حکم دیا لیکن شہری کے انکار پر اور اس والدہ کی جانب سے روکنے کی کوشش کے باوجود پولیس نے اسے گولی مار کر ہلاک کردیا۔
پولیس فائرنگ سے سیاہ فام شہری کی ہلاکت کے بعد مظاہرین احتجاج کے لیے جمع ہو گئے۔
27سالہ سیاہ فام شہری والٹر ویلیس کی پولیس فائرنگ سے ہلاکت کے بعد سیکڑوں مظاہرین جمع ہوگئے، مشتعل ہجوم پر قابو پانے کے لیے پولیس کو لاٹھی اور ڈنڈوں کا استعمال کرنا پڑا۔
امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ موبائل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دماغی صحت کے مسائل سے دوچار والٹر والس ہاتھ میں چاقو تھامے اپنی والدہ کو پیچھے کی جانب دھکیلتے ہوئے پولیس کی جانب چل پڑا۔
ویڈیو میں ایک افسر کی جانب سے چاقو نیچھے رکھو کی آواز سنائی دی جاسکتی ہے جس کے بعد پولیس فائرنگ کی گئی۔
رات بھر سے جاری رہنے والے فسادات اور تصادم میں کم از کم 30 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔
ریاستہائے متحدہ امریکا کے شہریوں میں احتجاج کی لہر مئی میں امریکی ریاست مینیسوٹا میں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد بھی دیکھنے میں آئی۔
واضح رہے کہ جارج فلائیڈ کی ہلاکت پولیس تحویل میں ہوئی تھی اور اُس واقعے کی وائرل ویڈیو میں جارج کو گھٹی گھٹی آواز میں یہ کہتے سنا گیا کہ مجھے سانس نہیں آرہی تاہم اس کے باوجود پولیس اہلکار جارج کی گردن کو گھٹنے سے دبائے کھڑا ہے۔
اس سے قبل بھی امریکا میں ہوئے احتجاج میں مظاہرین کی جانب سے پولیس پر نسل پرستی اور بربریت کے الزامات عائد کیے جا چکے ہیں۔