کرسٹوفرکربز دوسرے ہائی پروفائل افسر ہیں جن کو امریکی صدر نے ہاں میں ہاں نہ ملانے پر فارغ کیا ہے۔فائل فوٹو
کرسٹوفرکربز دوسرے ہائی پروفائل افسر ہیں جن کو امریکی صدر نے ہاں میں ہاں نہ ملانے پر فارغ کیا ہے۔فائل فوٹو

ٹرمپ’’گدھے‘‘کا غصہ افسران پر نکالنے لگے

رپورٹ:علی علی اعظمی
شکست خوردہ ڈونالڈ ٹرمپ، ’’گدھے‘‘ کے نشان سے الیکشن جیتنے والے جو بائیڈن کا غصہ سرکاری افسران پر نکالنے لگے۔ تازہ واقعے میں انہوں نے یو ایس سائبر سیکیورٹی ڈائریکٹر کو فارغ کر دیا ہے۔ سائبر سیکیورٹی ڈائریکٹرکرسٹوفرکربزکا قصور یہ تھا کہ انہوں نے الیکشن نتائج کے حوالے سے ٹرمپ کے عائد کردہ دھاندلی کے الزامات تسلیم کرنے سے انکارکیا تھا۔ کرسٹوفرکربزایک ماہ میں دوسرے ہائی پروفائل افسر ہیں۔ جن کو امریکی صدر نے ہاں میں ہاں نہ ملانے پر فارغ کیا ہے۔

اس سے قبل وہ الیکشن نتائج کو شفاف قرار دینے والے سیکریٹری دفاع مارک ایسپر کو بھی گھر بھیج چکے ہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ وہ کرسٹوفر کو صدارتی انتخاب کے نتائج سے متعلق ان کے حالیہ بیان کی بنیاد پر فارغ کر رہے ہیں۔

ٹرمپ کادعویٰ تھا کہ کرسٹوفر نے الیکشن نتائج سے متعلق بہت غلط بیانی کی۔ دوسری جانب ٹویٹر انتظامیہ نے ایک بار پھر ایکشن لیتے ہوئے صدر ٹرمپ کے اس ٹویٹ پر انتباہی نوٹس لگا دیا ہے۔ ادھر کرسٹوفر کربز نے واضح کیا کہ انہیں اپنے کام پر فخر ہے۔

’’نیویارک پوسٹ‘‘ کے مطابق کرسٹوفر حالیہ دنوں میں امریکی صدارتی انتخاب کے دوران ووٹنگ فراڈ کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اپنی برطرفی سے قبل کرسٹوفر کربز نے کہا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی یا فراڈ کے الزامات سے متعلق کوئی ثبوت نہیں۔

واضح رہے کہ ٹرمپ انتخابات سے پہلے سے ہی ڈاک کے ذریعے ووٹنگ میں بڑے پیمانے پر فراڈ کے خدشات کا اظہار کر رہے تھے، جنہیں بیشتر حلقوں نے مسترد کردیا تھا۔ اب بھی ان الزامات کو کوئی سرکاری ادارہ تسلیم کرنے سے گریزاں ہے۔

امریکی و عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے دھاندلی کے الزامات کے اب تک ایسے شواہد نہیں پیش کیے ہیں، جن کا انہیں عدالتوں میں فائدہ پہنچے۔

اپنے ٹوئٹس میں ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ الیکشن کے بارے میں کرسٹوفر کے حالیہ بیانات بہت غلط تھے۔ انتخابات میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں اور فراڈ کیا گیا، جن میں مردہ افراد کی ووٹنگ بھی شامل ہے۔ جبکہ الیکشن کی نگرانی کرنے والوں کو بھی پولنگ کے مقامات تک رسائی نہیں دی گئی۔

الیکٹرونک مشینوں میں بھی مسائل تھے اور انہوں نے ٹرمپ کے ووٹس کو بائیڈن کے ووٹس میں بدل دیا۔ جبکہ تاخیری ووٹنگ بھی ہوتی رہی۔ اسی لئے فوری طور پر کرسٹوفر کربز کو عہدے سے ہٹایا جارہا ہے۔ کرسٹوفر بھی کچھ عرصے سے ان خدشات کا شکار تھے کہ انہیں فارغ کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب گزشتہ ہفتے انہوں نے باقی عہدیداروں کے ساتھ صدارتی انتخابات کو شفاف قرار دیا تھا۔

سائبر سیکیورٹی ایجنسی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ایسی کسی بات کا ثبوت نہیں ملا کہ الیکشن سسٹم نے ووٹ ضائع یا تبدیل کیے۔ کرسٹوفر کے اس بیان پر الیکشن سیکورٹی گروپس کے دستخط بھی تھے۔ ’’سی این این‘‘ کے مطابق کرسٹوفرکربزکئی افراد سے کہہ چکے تھے کہ انہیں اس بات کی فکر نہیں اگر صدر ٹرمپ انہیں نوکری سے نکال دیتے ہیں۔

امریکی میڈیا تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے یکے بعد دیگرے کئی ہائی پروفائل افراد کو نوکریوں سے برخاست کرنے پر سیکیورٹی کمیونٹی میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں قومی سلامتی کے اداروں کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا اوران پر الزام لگایا کہ وہ ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ ہیں اوران کو صدارت سے ہٹانے کی سازش میں مصروف ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے آغاز سے ہی سیکیورٹی اداروں کے خلاف جارحانہ مزاج اپنائے رکھا۔

کرسٹوفر کربز کی برطرفی کے بعد امریکی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اب سی آئی اے کی ڈائریکٹر جینا ہاسپل کی باری آسکتی ہے۔ ان کے سر پر یہ تلوار اس وقت سے لٹک رہی ہے، جب سے وہ اس عہدے پر ہیں۔ لیکن جینا کے حامی کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت احتیاط سے اپنے فرائض انجام دیے ہیں تاکہ ایک جانب وہ صدر ٹرمپ کی دشمن ہونے کا تاثر نہ دیں، تو دوسری جانب سی آئی اے کو بھی سیاسی فریق بننے سے بچائیں۔ کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اگر ان کو سی آئی اے ڈائریکٹر شپ سے ہٹا دیا گیا تو ان کی جگہ کسی ٹرمپ کے کسی حامی کو سی آئی اے کا سربراہ بنا دیا جائے گا۔

ادھر ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرس رے کو بھی نوکری سے نکالا جاسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی خواہش تھی کہ ایف بی آئی ڈائریکٹر ان انتخاب میں ویسا ہی کردار ادا کریں، جیسا 2016ء کے الیکشن میں اس وقت کے ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمز کومی نے ادا کیا تھا۔ جیمز کومی جے ڈیموکریٹس امیدوار ہیلری کلنٹن کی ای میلز اسکینڈل کی تفتیش کی تھی۔ اسی کی وجہ سے ہیلری کو اپنی صدارتی مہم کے آخر میں نقصان ہوا۔

امریکی تجزیہ نگاروں کو ایک اور خدشہ یہ بھی لاحق ہے کہ پنٹاگون میں اہم عہدوں پر سیاسی نوعیت کی تعیناتی ہوسکتی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اور ان کی ٹیم چاہتی ہے کہ ایسے افراد کو قومی سلامتی کے اداروں کی سربراہی سونپی جائے، جو نئے صدر کے آنے کے باوجود ڈونالڈ ٹرمپ کیلئے کردار ادا کرتے رہیں۔ کرسٹوفر کربز نے صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا- سی آئی اے ڈائریکٹر بھی ٹرمپ کے نشانے پر ہیں۔