سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ تقررکرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔فائل فوٹو
سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ تقررکرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔فائل فوٹو

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیس۔ وزیراعظم کے ٹیکس گوشوارے طلب کرنے کی استدعا

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران فاضل جج کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر قانون سمیت تمام فریقین اوران کے اہل خانہ کے ٹیکس گوشوارے طلب کیے جائیں۔

جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی لارجر بینچ جسٹس قاضی فائزعیسٰی صدارتی ریفرنس نظرثانی کیس پر سماعت کی۔

جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کے قواعد کے مطابق جو بینچ فیصلہ کرتا ہے وہی نظرثانی اپیل بھی سنتا ہے، 3 معزز ججز کو بینچ سے نکالا گیا، ایسا کرکے میرے حقوق متاثر کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس گلزار احمد قاضی فائز عیسٰی کے بینچ کا حصہ رہ چکے ہیں، چیف جسٹس بطورچیئرمین جوڈیشل کمیشن ہماری قسمت کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ 7 رکنی بینچ کے فیصلے کو6 رکنی بینچ کالعدم قرارنہیں دے سکتا، اس لیے میرے مقدمے کی سماعت کے لیے 10 رکنی بینچ تشکیل دیا جائے۔ عدالت کیس میں بنائے گئے فریقین سے ان کے اثاثوں اور گوشواروں کی تفصیلات طلب کرے۔

سرینا عیسیٰ کے طریقہ کاراور چیف جسٹس سے متعلق بیان پر جسٹس عمرعطا بندیال برہم ہوگئے، انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمارے لیے محترم ہیں، آپ ہماری فیملی کی طرح ہیں لیکن سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے بارے میں بات کرتے ہوئے احتیاط برتیں، آپ نے جس انداز میں سوالات اٹھائے یہ طریقہ درست نہیں ہے، مانتا ہوں کہ 6 رکنی بینچ 7 رکنی بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا لیکن ہم نظر ثانی اپیل نہیں بینچ کی تشکیل کے خلاف درخواست سن رہے ہیں، فل کورٹ تشکیل دینے کا معاملہ چیف جسٹس نے عدالت پر چھوڑ دیا ہے، 6 رکنی بینچ کی تشکیل سے متعلق فیصلہ دے سکتا ہے۔

سرینا عیسیٰ نے فیصلے کے اختلافی نوٹس پر بھی اعتراض کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ اختلافی نوٹ دینے والے 3 ججز نے بھی مجھے سنے بغیر فیصلہ کیا، جاننا چاہتی ہوں مجھے اور میرے شوہر کو کیوں نشانہ بنایا گیا، پوری عدلیہ میں صرف میں نے اور میرے شوہر نے اثاثے ظاہر کیے، میرے شوہر کو ٹارگٹ کرنے کے لیے انکم ٹیکس قانون کا استعمال کیا گیا،وزیراعظم اور وزیر قانون سمیت تمام فریقین کے ٹیکس گوشوارے مانگے جائیں، تمام فریقین اپنے اہلخانہ کے بھی ٹیکس گوشوارے جمع کرائیں،ٹیکس گوشوارے نہ دینے سے ظاہر ہوگا کہ فریقین منافقت کر رہے ہیں۔

سماعت کے دوران وکلا تنظیم کی جانب سے  رشید اے رضوی نے کہا کہ ’اگر نو جج نظرثانی کیس سنیں تو اس سے نقصان کیا ہے؟‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ انصاف نہیں ہوا۔

رشید اے رضوی نے موقف اختیار کیا کہ نظرثانی درخواست کی سماعت فیصلہ کرنے والا بینچ ہی سکتا ہے،قانون اورعدالتی فیصلوں کیخلاف کچھ ہوا تو عدلیہ کا امیج خراب ہوگا۔

اس پر بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک سینیئر وکیل کے منہ سے عدالت پرعدم اعتماد قابل افسوس ہے۔بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کا تاثرعوام میں رکھنا بارکاکام ہے۔’جج خود عوام میں نہیں جاسکتے۔ احتساب کے بغیر عدلیہ کی آزادی ممکن نہیں۔

‘ان کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں توازن رکھا۔ ’ایک طرف جج پر لگائے اعتراضات ختم کرکے عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھا۔ دوسری طرف احتساب کے عمل کو تحفظ دیا۔‘

سپریم کورٹ بارکے صدر لطیف آفریدی نے موقف اختیارکیا کہ بینچ کی تشکیل کے نکتے پر دلائل کے لئے وقت درکارہے، لطیف آفریدی کی استدعا پرکیس کی سماعت 10 دسمبرتک ملتوی کردی گئی۔