امت رپورٹ
مردم شماری کی منظوری کولے کرایم کیو ایم پاکستان ایسے واویلا کر رہی ہے جیسے یہ کوئی دوتین روز پرانا ایشو ہو۔ اور یہ کہ گویا ایم کیو ایم کو علم ہی نہیں تھا کہ اس بارے میں پہلے روز سے ہی وفاقی حکومت کیا فیصلہ کرچکی ہے۔ کھوج لگانے پر معلوم ہوا کہ دراصل اس ایشو پر حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان پچھلے ڈھائی تین برس سے نورا کشتی چل رہی ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ حکومتی اتحادی بنتے وقت ایم کیو ایم نے مردم شماری کے معاملے کو بظاہر اپنے منشور میں سب سے اوپر رکھا تھا۔ اس سارے قصے کے پس پردہ حقائق سے واقف ذرائع نے بتایا کہ حال ہی میں وفاقی کابینہ کی جانب سے مردم شماری دوہزار سترہ کے نتائج کی منظوری پر ایم کیو ایم کی دھمکیاں اور پی ٹی آئی وزرا کی فکر مندیاں، طے شدہ انڈر اسٹینڈنگ اور اس نوراکشتی کا حصہ ہیں، جو پچھلے ڈھائی تین برس سے چل رہی ہے۔
واضح رہے کہ دو ہزار سترہ کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی کو ایک کروڑ چالیس لاکھ نوے ہزار قرار دیا جارہا ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم پاکستان اور بعض دیگر پارٹیوں کا کہنا ہے کہ اس وقت شہر قائد کی آبادی تین کروڑ کے قریب ہے۔ یوں مردم شماری میں کراچی کی آبادی کم دکھاکر زبردست ڈنڈی ماری گئی ہے۔ لہٰذا مردم شماری کے اعدادوشمار درست کئے جائیں۔ جب دوہزار سترہ میں اس مردم شماری کے نتائج کا اعلان کیا گیا تھا تو الیکشن ہونے میں لگ بھگ ایک برس باقی تھا۔ مردم شماری کے نتائج پر کراچی سمیت سندھ سے تعلق رکھنے والی کئی پارٹیوں نے سخت احتجاج کیا تھا۔ ان میں بظاہر ایم کیو ایم پاکستان پیش پیش تھی۔
تاہم ذرائع نے بتایا کہ ایم کیو ایم کو خصوصی پیغام تھا کہ یہ احتجاج فیس سیونگ کی حد تک رہنا چاہئے۔ بصورت دیگر جو چند سیٹیں اس بار کراچی سے ملنی ہیں، اس سے بھی ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے۔ اس انتباہ کے بعد مردم شماری کے حوالے سے نوراکشتی کا آغاز ہوا۔ ایم کیو ایم نے مردم شماری کے نتائج پر شور شرابا کیا۔ اپنے ووٹرز کو مطمئن اور مہاجر ووٹ پر الیکشن لڑنے والے دیگر دھڑوں کا منہ بند کرنے کے لئے دکھاوے کے طور پر عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا۔ تاہم عدالت میں اس کیس کو پرسو نہیں کیا۔ اس وقت ایم کیو ایم کے سربراہ فاروق ستار تھے۔ بعد ازاں جنہیں پارٹی سے فارغ کردیا گیا۔ ایم کیو ایم نے اپنی انتخابی مہم مردم شماری کے قضیہ کو لے کر لڑی اور کہا گیا کہ وہ ان نتائج کو تبدیل کرائے گی۔ جب الیکشن کے بعد حکومت سازی کا عمل شروع ہوا تو ایم کیو ایم نے اتحادی بننے کی شرائط پر مبنی معاہدے میں بھی بظاہر مردم شماری دوبارہ کرانے کے مطالبے کو سرفہرست رکھا۔ لیکن ڈھائی برس گزر گئے حکومت نے اس معاملے پر توجہ نہیں دی اور ایم کیو ایم نے بھی چپ سادھ لی۔ کیونکہ یہی طے ہوا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ اس نوراکشتی میں کڑا وقت اس وقت آیا جب رواں ماہ کے وسط میں سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی کابینہ کے سیکریٹری کو سختی سے ہدایت کی کہ مردم شماری دوہزار سترہ کے نتائج کے اجرا میں تاخیر سے نمٹنے کے لئے فوری اجلاس طلب کیا جائے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے اجلاس سے متعلق پیش رفت رپورٹ طلب کرلی تھی۔
پی ٹی آئی کے ذرائع نے بتایا کہ مردم شماری نتائج کے اجرا میں تاخیر پر عدالت کی برہمی اور مزید تاخیر کے انجام کی سنگینی سے جب قانونی مشیروں نے وزیراعظم کو آگاہ کیا تو پھر اس عمل کو فوری آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ورنہ انڈراسٹینڈنگ تھی کہ حکومت اپنے اقتدار کی مدت پوری ہونے تک اس معاملے کو لٹکانے کی کوشش کرے گی اورجواباً ایم کیو ایم چپ سادھے رکھے گی۔ تاہم عدالتی مداخلت پر حکومت کو مجبوراً کابینہ کا اجلاس بلاکر اس میں مردم شماری نتائج کی منظوری دینی پڑی بصورت دیگر یہ معاملہ مزید تاخیر کا شکار ہونا تھا۔
ذرائع کے بقول اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے ڈھائی پونے تین سالہ دور میں پی ٹی آئی حکومت نے وفاقی کابینہ کے کسی بھی اجلاس میں اس ایشو کو نہیں اٹھایا تھا۔ تاہم اس دوران اتنا ضرور کیا گیا کہ حکومت نے مردم شماری سے متعلق ایک کابینہ کمیٹی تشکیل دے دی اور کہا گیا کہ یہ کمیٹی ساٹھ روز میں مردم شماری نتائج سے متعلق تمام فریقین سے مشاورت کرکے کوئی حل نکالے گی۔ یہ ساٹھ روز کئی ماہ پر محیط ہوگئے۔ آخر کار عدالت کو سخت نوٹس لینا پڑا۔ یوں تین برس کی تاخیر کے بعد پانچ روز پہلے وفاقی کابینہ نے چھٹی قومی مردم شماری کی منظوری دے دی۔
وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مردم شماری کے نتائج پر مبنی رپورٹ مشترکہ مفادات کونسل کو ارسال کی جائے گی۔ تاکہ صوبوں میں اتفاق رائے سے اس کی حتمی منظوری مل سکے۔ اجلاس میں شریک ایم کیو ایم کے وفاقی وزیر امین الحق نے اس فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا۔ یوں مردم شماری کے ایشو پر اپنی انتخابی مہم چلانے اور حکومتی اتحاد سے متعلق شرائط میں بظاہر مردم شماری کے معاملے کو سرفہرست رکھنے والی ایم کیو ایم نے ایک کاغذ کے پرزے پر اختلافی نوٹ لکھ کر اپنا انتہائی ’’سخت‘‘ احتجاج ریکارڈ کرادیا۔
ذرائع نے بتایا کہ اس فیصلے پر ایم کیو ایم نے دبے لفظوں حکومت سے شکوہ بھی کیا تھا کہ اسے امتحان میں ڈال دیا گیا ہے اور اب ایشو کو مہاجر ووٹ کی سیاست کرنے والی دیگر پارٹیاں اور دھڑے ایکسپلائٹ کریں گے۔ لیکن عدالتی حکم کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت نے اپنی معذوری ظاہر کردی۔
حکومت کی اتحادی ایک اور پارٹی کے اہم رکن کے بقول اس صورتحال میں فیس سیونگ کے لیے ایم کیو ایم کے پاس حکومت کو دھمکیاں دینے ، اتحاد سے علیحدہ ہونے اور دکھاوے کے احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
اس رہنما نے بتایا کہ کابینہ اجلاس میں مردم شماری کی منظوری سے صرف پانچ روز قبل خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں ایم کیو ایم کے وفد نے وزیر اعظم عمران خان سے جو ملاقات کی تھی، اس موقع پر بھی صرف سینیٹ الیکشن کے حوالے سے سودے بازی کے معاملات طے کیے گئے۔
مردم شماری کے معاملہ پر ایم کیو ایم رہنمائوں نے ایک لفظ منہ سے نہیں نکالا حالانکہ ایم کیو ایم کو بتادیا گیا تھا کہ مردم شماری کے حوالے سے حکومت کیا کرنے جارہی ہے۔ ملاقات کے موقع پر وزیراعظم نے ایم کیو ایم کو یقین دلایا کہ پی ٹی آئی کی نو منتخب گلگت بلتستان حکومت میں اسے اہم رول دیا جائے گا۔ اس کے عوض ایم کیو ایم نے یقین دلایا کہ سینیٹ الیکشن میں تحریک انصاف کا بھرپور ساتھ دیا جائے گا۔ رہنما کا کہنا ہے کہ مردم شماری کی منظوری پر ایم کیو ایم کی حالیہ دھمکیاں اور مظاہرے کرنے کا اعلان محض سیاسی کرتب بازی ہے۔ فیس سیونگ کے لئے ایم کیو ایم کچھ روز یہ تماشا لگائے گی، جس کے تحت چند مظاہرے بھی کئے جائیں گے اور پھر حسب سابق خاموشی چھاجائے گی۔ یعنی نورا کشتی کا سلسلہ چلتا رہے گا۔
رہنما کے مطابق جہاں تک حکومت سے علیحدگی کا تعلق ہے تو یہ پی ٹی آئی کو بھی معلوم ہے کہ حکومت کے ساتھ تعلق کی جس ڈور سے ایم کیو ایم کو باندھا گیا ہے، وہ بڑی مضبوط ہے۔ جب تک ڈور میں باندھنے والوں کی منظوری نہیں ملے گی، ایم کیو ایم حکومت کا حصہ بنی رہے گی۔ حکم عدولی کی صورت میں اقتدار سے الگ ہونے کے ساتھ جیلوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ ایم کیو ایم پاکستان کے قابل ذکر رہنمائوں کی موٹی موٹی فائلیں تیار پڑی ہیں۔
اس سارے معاملے پر تحریک انصاف کراچی کے ایک مقامی رہنما کا کہنا ہے کہ حکومت چھوڑنے کی دھمکیاں دینے والی ایم کیو ایم تو آئندہ بلدیاتی الیکشن کے لئے پہلے ہی پی ٹی آئی سے ساز باز کی ہامی بھرچکی ہے۔ تاہم یہ معاملات ابھی صرف زبانی کلامی حد تک ہیں۔ جس کے تحت کراچی کی میئر شپ تحریک انصاف کو دی جائے گی جبکہ وائس میئر شپ اور چند اہم اضلاع کے چیئرمین ایم کیو ایم سے لئے جائیں گے۔ اسی طرح حیدرآباد کی میئر شپ بھی ایک بار پھر ایم کیو ایم کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اگر سیاسی صورتحال میں تبدیلی نہیں آئی تو بلدیاتی الیکشن میں دونوں پارٹیاں اس طے شدہ ساز باز کے ساتھ میدان میں اتریں گی۔