پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابرافتخار نے کہاہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبا ن پاکستان کے رکن احسان اللہ احسان کے پاکستانی فوج کی تحویل سے فرار ہونے کے ذمے دارفوجی افسران تھے، ان کے خلاف کارروائی کی جا چکی ہے ۔ پاکستان میں شدت پسندوں کی مدد افغانستان سے کی جا رہی ہے جہاں انڈیا ان تنظیموں کو ناصرف اسلحہ اور پیسے دے رہا ہے بلکہ نئی ٹیکنالوجی سے بھی نواز رہا ہے۔
غیر ملکی صحافیوں کے ساتھ بات چیت کے دوران میجر جنرل بابرافتخار نے بتایا کہ احسان اللہ احسان کا فرار ہونا ایک سنگین معاملہے تاہم اسے دوبارہ پکڑنے کیلئے کوششیں جاری ہیں لیکن فی الحال معلوم نہیں وہ کہاں چھپا ہواہے ۔فوجی ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے صحافیوں کی جانب سے جبری طور پر لاپتہ افراد کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مسنگ پرسنز کے معاملے پر بننے والے کمیشن نے بہت پیش رفت کی ہے۔انہوںنے کہا کہ اس کمیشن کے پاس چھ ہزار سے زائد افراد کے گمشدہ ہونے کے مقدمات تھے جن میں سے چار ہزار حل کیے جا چکے ہیں۔ ان کا واضح طور پر کہنا تھا کہ مسنگ پرسنز کا معاملہ بہت جلد حل ہو جائے گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے اپنی گفتگو میں انکشاف کیا کہ گذشتہ ماہ بلوچستان کے علاقے کیچ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے گیارہ کان کنوں کے قتل سے تعلق کی بنا پر چند افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بہت اہم گرفتاریاں ہیں لیکن ان کی مزید تفصیل دینے سے معذرت کی۔
گذشتہ کچھ عرصے کے دوران ملک کے سابق قبائلی علاقوں، خاص طور پر شمالی وزیرستان میں شدت پسندی کے بڑھتے واقعات کے بارے میں ایک سوال پر فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں منظم شدت پسند تنظمیوں کو تو بہت عرصہ پہلے ختم کر دیا گیا تھا اوراب ان میں اس علاقے میں بڑا حملہ کرنے کی صلاحیت نہیں لیکن کچھ عرصے سے ان علاقوں میں ایک بار پھر تشدد کے اکا دکا واقعات رپورٹ کیے جا رہے ہیں
۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے ان تازہ شدت پسند حملوں کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے بچے کچے شدت پسندوں کے خلاف بہت جارحانہ کارروائیاں شروع کی ہیں اور تازہ تشدد اسی کا نتیجہ ہے۔
ان کا کہناتھا کہ آپ جب بھی شدت پسندوں کی پیچھے جاتے ہیں، جارحانہ انداز میں تو اس کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے کہ ردعمل آتا ہے اور سیکیورٹی فورسز کا بھی نقصان ہوتا ہے اور عمومی طور پر بھی تشدد میں وقتی اضافہ ہوتا ہے۔جنرل بابر افتخار نے کہا کہ گذشتہ دنوں خواتین کی کار پر حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ انھوں نے کہا کہ اب اس علاقے میں کوئی منظم گروہ باقی نہیں رہ گیا اور چھوٹے موٹے شدت پسند مختلف ناموں سے کارروائیاں کر رہے ہیں جن کا جلد ہی مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخارنے کہا کہ پاکستان میں شدت پسندوں کی مدد افغانستان سے کی جا رہی ہے جہاں انڈیا ان تنظیموں کو ناصرف اسلحہ اور پیسے دے رہا ہے بلکہ نئی ٹیکنالوجی سے بھی نواز رہا ہے۔ہمارے پاس ایسے شواہد ہیں کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان مخالف شدت پسندوں کو ناصرف اسلحہ اور پیسے مل رہے ہیں بلکہ نئی ٹیکنالوجی بھی دی جا رہی ہے۔ اس کا مقصد ان دہشت گردوں کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں فوجی ترجمان نے کہا کہ یہ بات بعید ازقیاس نہیں ہے کہ یہ سب کارروائی افغان انٹیلی جنس کے علم میں ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کافی تفصیل کے ساتھ افغانستان میں امن عمل اور فوجی انخلا پر بات کی۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ یہی تھا کہ پاکستان ہر قیمت پر افغانستان میں امن چاہتا ہے اور اس سلسلے میں اس سے جو کچھ ہو سکتا تھا، وہ پاکستان کر چکا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان نے طالبان پر اپنا اثر و رسوِخ جس قدر ممکن تھا وہ استعمال کر لیا ہے، اس بات کی گواہی اب تو افغان رہنما بھی دے رہے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان میں امن کے لیے اخلاص کے ساتھ ہر ممکن کوشش کرلی ۔