اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سینیٹ الیکشن صدارتی ریفرنس کیس میں دلائل مکمل ہونے کے بعد اپنی رائے محفوظ کرلی۔
سپریم کورٹ میں سینیٹ الیکشن صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی تو پاکستان بار کونسل کے وکیل منصور عثمان نے دلائل دیے کہ قومی اسمبلی کا الیکشن براہ راست اور سینیٹ کا الیکشن متناسب نمائندگی کے ذریعے مکمل ہوتا ہے، کرپٹ پریکٹس کے خلاف اقدامات انتحابات سے پہلے ہونے چاہئیں، اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو آئین کا ارٹیکل 218 بے سود ہو جائے گا، اگر سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کیا گیا تو اس کا اثر تمام انتحابات پر ہو گا۔؟درحقیقت الیکشن کا مطلب ہی سیکرٹ بیلٹ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے سوال صرف آرٹیکل 226 کے نفاذ کا ہے، کیا وجہ ہے کہ انتخابی عمل سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ترمیم نہیں کی جارہی؟ انتخابی عمل شفاف بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں قراردایں منظور ہوتی ہیں، پیپلز پارٹی دور میں بھی سینیٹ الیکشن کے حوالے سے موقع تھا، سیاسی جماعت سینیٹ الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کو تسلیم کررہی ہیں، آپ نے ویڈیو بھی دیکھی ہیں کیا آپ دوبارہ وہی کرنا چاہتے ہیں، سب کرپٹ پریکٹس کو تسلیم بھی کررہے ہیں لیکن خاتمے کے اقدامات کوئی نہیں کر رہا ہے، ہر جماعت شفاف الیکشن چاہتی ہے لیکن بسم اللہ کوئی نہیں کرتا۔
لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل خرم چغتائی نے دلائل دیے کہ وفاقی حکومت کو عدالت سے رائے مانگنے کا اختیار نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن سویا ہوا ہے اور جاگنے کو تیار نہیں، الیکشن کمیشن نے کرپشن بھی روکنی ہے صرف انتحابات ہی نہیں کرانے، بار بار پوچھا کرپشن روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے کوئی جواب نہیں ملا۔
اٹارنی جنرل نے جواب الجواب دیتے ہوئے کہا کہ ووٹ کا جائزہ لینے سے سیکریسی ختم نہیں ہوتی، کوئی شہری پیسہ لیکر ووٹ نہ دے یہ جرم ہوگا، کوئی ایم پی اے ووٹ نہ ڈالنے کے پیسے لیکر ووٹ ڈالے تو جرم نہیں ہوگا؟۔
جسٹس یحیٰی آفریدی نے پوچھا کہ کیا ریفرنس پرسپریم کورٹ کی رائے حتمی ہوگی؟۔ تو اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت عدالت کی رائے کی پابند ہوگی، ریفرنس پر نظر ثانی درخواستیں نہیں آسکتیں۔
اٹارنی جنرل نے دلائل مکمل کرلیے۔ صدارتی ریفرنس میں تمام فریقوں کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے اپنی رائے محفوظ کرلی۔