عارف انجم:
قسط نمبر 7
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم مبارک ’’الریہ العقاب‘‘ صدیوں عرصہ تک عثمانی خلفا نے جنگوں میں استعمال کیا۔ لیکن دو باتوں کا خیال رکھا جاتا۔ ایک تو یہ کہ تعظیم کے پیش نظر اسے ہر مہم میں ساتھ نہیں لے جایا جاتا۔ اور دوسرا یہ کہ جب بھی پرچم مبارک کو توپ کاپی محل کے دیوان خاص سے نکالا جاتا۔ خاطر خواہ تعظیم و اکرام کے اظہارکا اہتمام کیا جاتا۔
فوج کو پرچم مبارکؐ سونپنے سے چالیس دن پہلے مخصوص صندوق سے نکال کر ایک پول پر لگا دیا جاتا۔ چالیسویں دن عثمانی سلطان خود اس کمرے میں پہنچتے۔ جہاں پرچم مبارک سمیت نبی اکرم ﷺ کی مقدس امانتیں رکھی ہیں۔ سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے دوران سلطان پرچم مبارک کو اپنے کندھے پر اٹھاتے اور عرض خانے میں لے جاتے۔ حفاظ اس دوران سورۃ فاتحہ یا سورۃ یاسین کی تلاوت جاری رکھتے۔ تلاوت کے اختتام پر وزیر اعظم کو بلایا جاتا۔ جو توپ کاپی محل کے ’’باب السعادت‘‘ پر پہلے سے منتظر ہوتے۔ باب السعادت توپ کاپی محل کے اندرونی حصے میں داخلے کا دروازہ ہے اور مقدس تبرکات اسی اندرونی حصے میں ہیں۔ باب السعادت صرف سلطان کی خصوصی اجازت سے ہی عبور کیا جاسکتا تھا۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم کو بھی اجازت درکار ہوتی۔ پرچم مبارک وصول کرنے کے لیے شیخ الاسلام سمیت دو علمائے دین وزیر اعظم کے ساتھ آتے۔ ان کے عرض خانے پہنچنے پر عثمانی سلطان پرچم مبارک یعنی الریہ العقاب کو بوسہ دیتے اور اسے وزیر اعظم کو سونپ دیتے۔ شیخ الاسلام سمیت دونوں علما کی دعاؤں کے سائے میں وزیر اعظم پرچم مبارک کو اٹھا کر چل پڑتے۔ فوجی افسران ان کے ساتھ ہوتے۔ پرچم مبارک کو باب السلام پر لایا جاتا۔ باب السلام کو اورتا کاپی یعنی وسطی دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ باب السلام پر وزیر اعظم پرچم مبارک کسی امام کو سونپتے۔ سورۃ فاتحہ کی تلاوت شروع ہو جاتی۔ اب پرچم مبارک کو داؤد پاشا بیرکس لایا جاتا۔ جہاں ترک فوج کی بیرکیں تھی۔ اس وقت یہاں پر یلدز یونیورسٹی قائم ہے۔ داؤد پاشا بیرکس میں پرچم مبارک کے لیے ایک خاص خیمہ لگایا جاتا یا عارضی کمرہ تیار کیا جاتا۔ یہاں پر عثمانی فوج (ینی چری) کے اراکین پرچم مبارک کے سامنے عبادت کرتے۔
1789ء میں سلطان سلیم سوم خود پرچم اٹھا کر داؤد پوتا بیرکس تک گئے اور وہاں اسے مصطفیٰ پاشا کو سونپا۔ داؤد بیرکس سے پرچم مبارک فوج کے ساتھ روانہ ہو جاتا۔
اگر کسی فوجی مہم پر سلطان خود نہیں جاتے تو افواج کی واپسی پر وہ محل سے نکل کر داؤد بیرکس میں پہنچ جاتے۔ تاکہ پرچم مبارک کا استقبال کر سکیں۔ سلطان اگر خود فوجی مہم سے واپس آتے تو بھی پرچم مبارک کے استقبال کی تقریب ہوتی۔ اسے قرآنی آیات کی تلاوت کے دوران دوبارہ مخصوص صندوق میں رکھا جاتا۔
میدان جنگ میں بھی عثمانی افواج پرچم مبارک کے لیے خصوصی خیمہ لگاتیں۔ جنگ کے دوران اسے سپہ سالار کے سامنے رکھا جاتا۔ پرچم مبارک کے ساتھ اہل بیت کی ایک جماعت لازمی رہتی۔ جس کے سربراہ اہل بیت سے تعلق رکھنے والے شیخ ہوتے۔ یہ جماعت مسلسل سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتی رہتی۔
پرچم مبارک کی حفاظت ایک خصوصی دستے کے سپرد تھی۔ اس دستے کو لوائے شریف تقیمی کہا جاتا۔ جب کہ اس دستے کے سربراہ کو ’’میر علم‘‘ کہا جاتا۔ 40 رکنی اس دستے کے اراکین کا انتخاب انتہائی احتیاط اور چھان پھٹک سے ہوتا۔
پرچم مبارک کی تعظیم کا یہ عالم تھا اور ہے کہ باب السعادت کے سامنے پرچم کا پول نصب کرنے کا ایک سوراخ بنا ہوا ہے۔ اس سوراخ میں پول لگا کر بعض اوقات پرچم مبارک کو یہاں آویزاں کیا جاتا تھا۔ جب پرچم مبارک یہاں موجود نہیں ہوتا۔ تب بھی دو پہرے دار یہاں تعینات رہتے۔ جن کی ذمہ داری یہ تھی کہ کوئی شخص غلطی سے بھی اس سوراخ پر پاؤں نہ رکھے۔ خلافت کے خاتمے کے بعد جب توپ کاپی محل کو میوزیم میں تبدیل کیا گیا تو یہاں پر ایک پتھر لگا کر اس کے گرد حفاظتی زنجیر نصب کر دی گئی۔
عثمانی سلطنت میں ہر کوئی پرچم مبارک کی تعظیم کرتا تھا۔ خلافت عثمانیہ کی پیادہ فوج ’’ینی چری‘‘ دنیا کی پہلی پیشہ ور اور مستقل فوج تھی۔ ینی چری 1365ء میں سلطان مراد اول نے تیار کی۔ ابتدا میں اس میں مفتوحہ علاقوں کے غیر مسلم نوجوانوں کو اسلام قبول کرنے کے بعد شامل کیا جاتا تھا۔ ان کا براہ راست تعلق سلطان سے ہوتا تھا۔ ان کی اہلیت کے مطابق انہیں سلطنت عثمانیہ میں مختلف عہدوں پر فائز کیا جاتا تھا۔ کیونکہ سلطان کے علاوہ ان کا کسی سے تعلق نہیں تھا۔ اس لیے یہ کسی بددیانتی میں ملوث نہ تھے۔ تاہم جب سلطنت عثمانیہ کمزور ہونے لگی تو ینی چری نے بغاوتیں شروع کر دیں۔ حلمی ایدین کے مطابق 1651ء میں ینی چری کی بغاوت کچلنے کے لیے پرچم مبارک کو استعمال کیا گیا۔ سلطان محمد اربع کے دور میں پرچم مبارک لے کر نکلنے والے دستوں نے باغی ینی چری فوجیوں کو دو راستے دیئے۔ یا تو وہ پرچم مبارک کے خلاف جنگ لڑیں یا پھر اس پرچم مبارک کے وفادار رہیں اور باغی افسران کو سلطان کے حوالے کر دیں۔ ینی چری نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ پرچم مبارک کے خلاف لڑنے کے بجائے انہوں نے اپنے باغی فوجی حکومت کے حوالے کر دیے۔ یوں بغاوت کا خاتمہ ہوگیا۔
1687ء میں جب ایک بار پھر ینی چری بے قابو ہوئے تو پرچم مبارک سامنے لایا گیا اور بغاوت ختم ہوگئی۔
ینی چری بغاوتوں کا آغاز تنخواہوں میں اضافے کے مطالبے سے ہوا تھا۔ لیکن بعد میں ان کے مطالبات بڑھتے گئے۔ بالآخر 1826ء تک یہ انتہائی بے لگام ہوگئے۔ 1807ء میں انہوں نے سلطان سلیم ثالث کو تخت سے ہٹا دیا۔ 1810ء میں ینی چری نے استنبول میں دو ہزار گھروں کو آگ لگا دی۔ اس صورت حال میں محمود ثانی نے ینی چری کے خاتمے کا تہیہ کر لیا۔ 1826ء میںینی چری نے محسوس کیا کہ سلطان نئی فوج تشکیل دیناچاہتے ہیں اور 14 جون 1826ء کو انہوں نے استنبول میں بغاوت کر دی۔
تاریخ کی عام کتابوں میں درج ہے کہ اس مرتبہ عوام ینی چری کے خلاف ہوگئے۔ تاہم کم لوگ جانتے ہیں کہ عوام کی جانب سے سلطان کا ساتھ دینے کے فیصلے کا بنیادی سبب کیا تھا۔
جب ینی چری نے 1826ء کی بغاوت کی تو سلطان کے حکم پر پرچم مبارک کو باہر نکالا گیا اور مسجد سلطان محمد کے منبر پر آویزاں کر دیا گیا۔ یہ عوام کے لیے اشارہ تھا کہ وہ ینی چری کے خلاف پرچم مبارک کے نیچے متحد ہو جائیں۔ حلمی ایدین کے مطابق ینی چری کو بھی پرچم مبارک کی اہمیت کا بخوبی اندازہ تھا۔ لہذا انہوں نے سلطان محمد مسجد پر دھاوا بول کر پرچم مبارک کو قبضے میں لینے کا سوچا۔ لیکن وزیر اعظم سلیم محمد پاشا نے مسجد کو ہیڈکوارٹر بنایا اور پہلے حملہ کر دیا۔ بغاوت کچلنے کے دوران سلطان کا نعرہ تھا: ’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام پیروکار پرچم مبارک کے نیچے جمع ہوجائیں‘‘۔
دو برس کے اندر ملک سے ینی چری کا خاتمہ کر دیا گیا۔
نبی اکرم ﷺ کے پرچم مبارک الریہ العقاب کی غیر معمولی تعظیم اور غیر معمولی اہمیت کے سبب ترک سلاطین کے لیے اس وقت مشکل پیدا ہوگئی جب وقت کے ساتھ پرچم مبارک پارچوں میں تبدیل ہونے لگا۔ پرچم مبارک کو کئی بار سیا گیا۔ لیکن وقت کے ساتھ اسے ایک ٹکڑے میں برقرار رکھنا تقریباً ناممکن ہو چکا تھا۔ لہٰذا تین نئے پرچم تیار کیے گئے۔ ساٹن کے ان پرچموں کے اندر الریہ القعاب کے چند پارچے سی دیئے گئے۔ جب کہ الریہ العقاب کے بیشتر حصے سبز تھیلے کے اندر صندوق میں محفوظ کردیئے گئے۔
رسول پاکؐ کے پرچم عقاب کا ایک ٹکڑا عثمانی سلطنت کے پرچم میں سی دیا گیا تھا- مذکورہ عثمانی پرچم آج بھی توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے- اس پرچم کی برکت سے عثمانی بادشاہوں کو بے شمار فتوحات ملیںتوپ کاپی میوزیم میں موجود تبرکات میں ایک ایسا عثمانی پرچم بھی شامل ہے۔ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پرچم مبارک سے قریبی نسبت کے سبب غیر معمولی تعظیم کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ یہ نسبت ڈیزائن کی نہیں۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے اس پرچم میں نبی اکرم ﷺ کے پرچم مبارک العقاب کے ٹکڑے سلے ہوئے ہیں۔ یہ پرچم اس وقت بنایا گیا تھا۔ جب اصل الریہ العقاب وقت گزرنے کے ساتھ پارچوں میں تبدیل ہونے لگا۔ اگرچہ الریہ العقاب کے بیشتر پارچے ایک سبز رنگ کے ریشمی تھیلے کے اندر رکھ کر صندوق میں محفوظ کیے گئے ہیں۔ تاہم ان میں سے کچھ ٹکڑے تین عثمانی پرچموں میں لگائے گئے تھے۔ ان تین میں سے ایک توپ کاپی میوزیم میں ہے۔ سبز رنگ کے ساٹن سے بنا یہ پرچم بھی ایک صندوق میں دیگر تبرکات مقدسہ کے ساتھ محفوظ ہے۔ ترک اسے ’’لوائے خضریٰ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ دونوں الفاظ عربی کے ہیں۔ جن کا مطلب ’’سبز پرچم‘‘بنتا ہے۔ عربی میں لواء کا لفظ اس پرچم کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جو پوری فوج کی نمائندگی کرتا ہے۔ جبکہ الریہ کا لفظ اس پرچم کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جو کسی مخصوص دستے کی نمائندگی کرتا ہے۔
لوائے خضریٰ کی پیمائش 155×115 سینٹی میٹر ہے۔ اس پر سرخ ساٹن کے 125×52 سینٹی میٹر کے ٹکڑے سیے گئے ہیں۔ جن پر چاندی کے رنگ کے تاروں سے قرآنی آیات تحریر ہیں۔ اس کے علاوہ سرخ ساٹن کے چھوٹے گول ٹکڑوں میں اسمائے الٰہی، اسمائے محمد ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے نام تحریر ہیں۔ پرچم کے کناروں پر جھالر لگائی گئی ہے۔
سرخ ساٹن کے بڑے ٹکڑے پر قرآن پاک کی آیت نَصر مِّنَ اللَّہِ وَفَتح قَرِیب وَ بَشِّرِ المْؤمِنِینَ (سورۃ الصف۔ آیت 13) تحریر ہے۔
لوائے خضریٰ کو ایک لکڑی کے ڈبے اور سبز رنگ کے غلاف میں رکھا گیا ہے۔ اس پرچم کو ایک تین میٹر لمبے لکڑی کے پول پر آویزاں کیا جاتا تھا۔ مذکورہ پول کے اوپر چاندی سے بنا ایک تاج (کرسٹ) ہوتا تھا۔ یہ پول اور کرسٹ بھی میوزیم میں محفوظ ہیں۔ پرچم اٹھانے کی سعادت حاصل کرنے والا ایک سبز رنگ کا کپڑا بھی کندھے سے لٹکا کر چلتا۔