ڈاکٹر فاروق ستار نے اميد ظاہر کی ہے کہ ان کے خلاف الزامات کی چھان بین میں انصاف کے تقاضے پورے ہونگے۔
کراچی میں ہفتے کو ڈاکٹر فاروق ستار کی سی ٹی ڈی میں پیشی ہوئی۔ اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہا کہ جس معاملےميں مجھےطلب کيا گيا اس سے کوئی تعلق نہيں ہے تاہم اس کی تفصيلات ميں نہيں جاسکتا کیوں کہ تحقيقات متاثر ہوسکتی ہيں۔
فاروق ستار نے کہا کہ جرائم،تشدد کے معاملے پر زيرو ٹالرنس ہے لیکن کسی اور کو طلب کيوں نہيں کيا جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں ميں اس طرح کے لوگ ہوتے ہيں تاہم اگر کوئی غلط عمل کررہا ہے تو يہ پارٹی پاليسی نہيں ہے۔
سندھ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے ایم کیو ایم سے الگ کئے گئے رہنماء ڈاکٹر فاروق ستار اور پاک سرزمین پارٹی کے رہنماء انیس احمد ایڈووکیٹ کو حیدرآباد میں دہشت گردی کے واقعات میں ان کی مبینہ شمولیت پر طلب کیا تھا۔
ڈی آئی جی کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ عمر شاہد حامد کا کہنا تھا کہ سی ڈی ٹی ان واقعات میں ملوث گرفتارعسکریت پسند سے تفتیش کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے ان واقعات میں زیادہ تر دو دہائیوں قبل پیش آئے تاہم ہم ان واقعات سے متعلق تمام پہلوؤں کی تفتیش کریں گے، ملزمان جو پہلے ایم کیو ایم لندن سے تعلق رکھتے تھے اب مختلف جماعتوں میں شامل ہوچکے ہیں۔
سیکیورٹی ایجنسیز نے 28 مئی کو لانڈھی ریلوے اسٹیشن کے قریب کارروائی میں تین مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا تھا، ملزمان کا تعلق ایم کیو ایم لندن سے ہے، جنہیں سی ٹی ڈی کے حوالے کیا گیا، ملزمان کی شناخت نعیم احمد، عمران احمد اور علیم الدین کے ناموں سے ہوئی۔
ملزمان نے بتایا کہ وہ اندرون سندھ میں ایک دہشت گرد نیٹ ورک چلارہے ہیں۔ مبینہ طور پر گرفتار افراد نے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ذریعے تربیت حاصل کی۔
دوسری جانب سربراہ ایم کیو ایم پاکستان تنظیمی بحالی کمیٹی ڈاکٹر فاروق ستار نے سی ٹی ڈی کی جانب سے نوٹس ملنے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں گھر پر ہی موجود ہوں، نہ ہی میرے گھر کوئی آیا اور نہ میں گھر سے کہیں گیا، عارضی طور پر کسی ہوٹل میں رہائش اختیار نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے حوالے سے میڈیا پر چلنے والے تمام باتیں جھوٹی اور بے بنیاد ہیں، اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے نہ ہی میرے حوصلے پست کر سکتے ہیں اور نہ ہی میری جدوجہد ختم ہوسکتی ہے۔